بلوچستان کے ضلع کیچ کے صدر مقام تربت، سنگانی سر جہاں بلوچستان کے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور بلوچی و اردو کے بڑے شاعر عطا شاد کا بھی تعلق ہے، بلوچستان کے کم عمر ترین میں سے ایک ڈپٹی کمشنر ذاکر بلوچ کی جنم بھومی بھی یہی زرخیز زمین ہے۔ وہ 12 اگست کی مغرب کے وقت کوئٹہ سے پنجگور بذریعہ روڈ سفر کر رہے تھے کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 65 کلومیٹر کے فاصلے پر کھڈ کوچہ، مستونگ کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد کی اندھا دھند فائرنگ سے زخمی ہو گئے۔ بروقت ابتدائی طبی امداد نہ ملنے پر جب وہ نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال میں پہنچے تو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔ جبکہ ان کے ساتھ پنجگور ضلع کونسل کے چیئرمین اور نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی رحمت صالح بلوچ کا بھائی چیئرمین عبدالمالک بلوچ بھی زخمی ہوئے ہیں۔
ذاکر بلوچ بلوچستان میں ایک ملنسار، ایماندار اور خوش مزاج آفیسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ بلوچستان کے جن جن علاقوں میں بطور آفیسر تعینات تھے انہوں نے اپنی کچھ اچھی یادیں چھوڑی ہیں اور وہاں کے لوگ اب بھی انہیں سنہرے الفاظ میں یاد کیا کرتے ہیں۔ وہ جہاں بھی تعینات تھے سول سروس کے آداب کے مطابق بلا رنگ و نسل اپنے لوگوں کی خدمت میں ہمہ وقت پیش پیش تھے۔ وہ اس وقت بلوچستان کے مکران ڈویژن کے ضلع پنجگور جو کہ کوئٹہ سے گوادر جاتے ہوئے (شاہراہ سی پیک بھی کہا جاتا ہے) پہلا ضلع ہے، جہاں آپ کو کھجوروں کا نخلستان ہی نخلستان نظر آتا ہے۔
ذاکر بلوچ نے میٹرک مقامی نجی سکول سے پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ عطا شاد ڈگری کالج سے ایف ایس سی پہلی پوزیشن میں پاس کرنے کے بعد ملک کی سب سے بڑی انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں سے ایک یو ای ٹی، لاہور سے پٹرولیم اینڈ گیس میں بی ایس سی کی۔ اس کے بعد وہ سول سروس کی تیاریوں میں مصروف رہے۔ وہ کالج اور جامعہ کے دوران ترقی پسند، روشن خیال اور قوم پرست تحریکوں کے لٹریچرز کا مطالعہ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سے تھا۔ وہ لاہور کیمپس میں بھی طلبہ سرگرمیوں اور طلبہ کے مسائل پر کلیدی کردار ادا کرتے رہے اور بلوچ کونسل کے چھہ رہ چکے ہیں۔ تعمیری و مثبت سوچ رکھنے والے یہ سیلف میڈ نوجوان ہمیشہ اپنے ہم عصر کے نجی محفلوں میں مثبت اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے پہ زور دینے والے ذاکر بلوچ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے اور اپنے بے شمار چاہنے والوں کے ساتھ اپنی بیوہ اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑ گئے۔
ذاکر نے یو ای ٹی لاہور سے شعبہ انجینئرنگ میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد سول سروس کی تیاروں کا سفر شروع کیا۔ انہوں نے دوران تیاری فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے محکمہ کسٹم میں بطور انسپکٹر پاس کی مگر انہوں نے کامیابی کا سفر جاری رکھتے ہوئے بلوچستان پبلک سروس کمیشن پی سی ایس میں اسسٹنٹ کمشنر کی کیٹگری میں ان کی تعیناتی ہوئی۔ انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان بھی دیا۔ 2017 میں سول سروس میں آنے کے بعد وہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بطور سول سروس اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کی پہلی پوسٹنگ بطور اسسٹنٹ کمشنر دریجی لسبیلہ میں ہوئی تھی۔ اے سی بیسیمہ، اے ڈی سی گوادر، ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ اور حال ہی میں وہ ڈپٹی کمنشر پنجگور تعینات تھے۔
ذاکر بلوچ کے بارے میں ان کے ایک کولیگ اور دیرینہ ساتھی سابق ڈپٹی کمشنر آواران (شیوننگ سکالر) ڈاکٹر جمیل احمد بلوچ کہتے ہیں کہ وہ ایک بہترین آفیسر اور ایک غیر معمولی انسان تھے، اس کا ناگہانی طور پر ہم سے بچھڑ جانا تصور سے باہر ہے اور ہمارے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ جمیل اپنے رفیق کے متعلق بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی غیر متزلزل وژن، عزم اور دیانت داری کے ساتھ دوسروں کی خدمت کے لیے خود کو ہمیشہ لیے وقف کر دی تھی۔ ہر ذمہ داری کو اعلیٰ سطح کی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ نبھایا۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس منصب پہ فائز تھے اور کہاں تھے، وہ ہر ایک کے لیے قابل رسائی تھے۔ انہوں نے کہا ذاکر اپنے علم، وژن، محنت اور صلاحیتوں کی وجہ سے بلوچ نوجوان آفیسر اور سول سروس میں نئے آنے والوں کے لیے بھی ایک متاثر کن شخصیت تھے۔ نوجوانوں میں ان کے بے شمار چاہنے والے تھے۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
'مجھے یاد ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات کراچی میں باہمی دوستوں کے ساتھ ہوئی۔ وہ ان دنوں اپنے سنہرے خواب کو لے کر اپنے کریئر کا آغاز کر رہے تھے۔ اس کے باوجود میں نے انہیں سول سروس کے لیے ہمیشہ توانائی اور جزبے سے بھر پور پایا۔ بعد میں یہ تعلق پیشہ ورانہ بن گیا۔ ہم نے ضلع لسبیلہ میں اکٹھے خدمات سرانجام دیں۔ وہ دریجی میں اسسٹنٹ کمشنر تھے۔
ذاکر بلوچ کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف بیانات مختلف حوالوں سے زیر گردش تھے۔ اس حوالے سے سینیئر صحافی حامد میر ایکس پر لکھتے ہیں کہ: 'ذاکر بلوچ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں آئے تھے۔ ان کی ملاقات اسٹیبلشمنٹ مخالف لوگوں سے ہوئی، جس پر بیوروکریسی میں موجود کچھ طاقتور لوگ ان کی ڈی سی شپ پر خوش نہیں تھے۔ وہ جو اس کنفلکٹ کے بینیفشری ہیں، انہیں ان کے قتل کی مذمت کرنے کا حق نہیں ہے'۔
حامد میر کی اس پوسٹ کو ری پوسٹ کرتے ہوئے برطانوی اخبار سے وابستہ صحافی شاہ میر بلوچ لکھتے ہیں کہ ذاکر جان اب اس دنیا میں نہیں ہے، وہ خود اپنا دفاع نہیں کر سکتا، مجھے ریکارڈ درست کرنے دیں، ذاکر ایک ماہ قبل اسلام آباد آئے تھے اور میرے مہمان تھے۔ ہم نے اسٹیبلشمنٹ مخالف لوگوں سے ملاقات نہیں کی، ہمیں مرنے والوں کا احترام کرنا چاہیے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ ذاکر بلوچ اور ستارہ شبیر کا قتل بلوچستان میں جاری کشت و خون کا وہ سلسلہ ہے جو گذشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے۔
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے تعلق رکھنے والے صحافی ظریف بلوچ نے بتایا کہ بلاشبہ پبلک سروس کمیشن پاس آفیسر قابل ہوتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ پیسے کے علاوہ بھی، سیاست، سماج اور تاریخ پہ عبور رکھتے ہیں، ذاکر ان گنے چنے بلوچ آفیسرز میں سے تھے کہ وہ مطالعہ کا ذوق رکھتے تھے، ایسے فرض شناس انسان نایاب ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اس روز توجہ سے سوشل میڈیا پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کوئٹہ میں منعقدہ جلسے سے متعلق خبریں اور تصاویر دیکھ رہے تھے کہ اچانک ذاکر بلوچ پر حملے کی خبر آئی، اگرچہ بی وائی سی کا جلسہ اہم تھا مگر پورے سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز ذاکر بن گیا۔ اس کی وجہ اس کی ایمانداری اور فرض شناسی کے علاوہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک اچھے، پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان تھے۔