ویسے تو تحریک انصاف کو سب سے موثر پراپیگنڈا میشن کے حوالے سے مثالوں کا حصہ بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنا جھوٹ بھی سچ بنا کر خوب بیچ لیتی ہے۔ کئی تجزیہ کار اسکو ہٹلر کی نازی پراپیگنڈا مشین سے بھی تشبیہہ دیتے ہیں۔
تاہم اب انکشاف ہوا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان روز کی بنیاد پر پارٹی کا بیانیہ میڈیا کے ذریعئے پھیلانے کے عمل کو بطور منصوبہ کڑی نگرانی کرتے ہیں اور یہ نگرانی اور احکامات کی ترسیل، ذرائع کے مطابق رازدارانہ طور پر کی جاتی ہیں۔ اس پراجیکٹ کی نگرانی خود براہ راست طور پر عمران خان خود کرتے ہیں۔
ڈان اخبار کے مطابق پارٹی کے اندر موجود قابل بھروسہ افراد کو غیررسمی طور پر حکومت کے بیانیے کو پھیلانے کی ذمے داری سونپی گئی ہے اور انہوں نے ترجمانوں کا ایک نیم سرکاری گروپ تشکیل دیا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر وزیر اعظم کے ساتھ باقاعدہ بریفنگ سیشن کرتے ہیں، ان میں سے بیشتر کو حکومت یا پارٹی کا سرکاری ترجمان بانے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔
وزیر اعظم مستقل طور پر اپنے ترجمانوں کی میٹنگ کرتے ہیں اور اجلاس سے جاری کردہ بیانات عام طور پر ٹی وی اور اخبارات کی شہ سرخی بنوائے جاتے ہیں۔ لاہور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جلسے کے ایک دن بعد پیر کو اس طرح کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم کو رپورٹ کرتے ہوئے حزب اختلاف کے جلسے کو ’فلاپ شو‘ قرار دیا گیا۔
تحریک انصاف حکومت کے پہلے وزیر اطلاعات اور موجودہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ڈان کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے وہ رہنما اور کابینہ کے اراکین جو ٹی وی شوز میں باقاعدگی سے مہمان ہوتے ہیں وہ حکومت کے ترجمانوں کے اس غیر رسمی گروپ کا حصہ ہیں اور وزیر اعظم انہیں وزیر اعظم آفس یا اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں میٹنگ کے لیے طلب کرتے ہیں جہاں یہ ملاقات 90 منٹ تک جاری رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے لوگ جو اسلام آباد سے باہر رہتے ہیں ویڈیو لنک کے ذریعے اس میٹنگ میں شرکت کرتے ہیں۔
میڈیا میں چلنے والے موضوعات پر تازہ ترین بیانیے سے لیس ہونے کے بعد ان ترجمانوں کو میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر بھیجا جاتا ہے جہاں ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس بیان کو پورے یقین کے ساتھ آگے بڑھا دیں، عہدیداروں کا کہنا ہے کہ رائے اور تشخیص کے لیے ان کی کارکردگی کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ طریقہ کار اس طرح کام کرتا ہے اگر کسی تکنیکی مسئلے کی تشہیر یا دفاع کی ضرورت ہے تو متعلقہ وزیر یا مشیر کو اجلاس میں مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ ان ترجمانوں کو بریفنگ دیں اور اس میں سرخی والے معاملے پر خصوصی توجہ دی جائے۔
اس طرح کے اجلاسوں میں شرکت کرنے والے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مثال کے طور پر اگر شہزاد اکبر کو اپوزیشن رہنماؤں کے احتساب اور بدعنوانی کے معاملات کے حوالے سے تازہ اپ ڈیٹ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو معیشت کے بارے میں تفصیلات معلوم کرنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔
ایک وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ ملاقاتیں ان ترجمانوں کو ایک موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنی پالیسی کو اوپر سے درست کر سکیں اور پالیسی کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے ہوئے سوالات پوچھنے اور تجاویز دینے کا موقع حاصل کر سکیں۔
فورم کے باقاعدہ اراکین میں وزیر اطلاعات شبلی فراز، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری،، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوان عثمان ڈار، ندیم افضل گوندل، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات رؤف حسن، معاون خصوصی شہباز گل، ولید اقبال، کنول شوزاب، ملائیکا بخاری, سینیٹر فیصل جاوید، وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید، صداقت عباسی, وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر، وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر صنعت برائے صنعت حماد اظہر شامل ہیں۔
ڈان نے لکھا کہ ترجمانوں کی ملاقاتیں غیر رسمی ہوتی ہیں اور اس کے بعد کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی جاتی۔ مزید یہاں تک کہ وزیر اعظم ہاؤس کے عہدیداروں کو بھی ان اجلاسوں میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔