لاہور کے شاہی قلعہ میں پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب ہے، اس مجمسے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کو ان کے پسندیدہ گھوڑے پر بیٹھے دکھایا گیا ہے، گزشتہ روز شاہی قلعے میں تفریح کے لئے آنے والے ایک نوجوان ظہیر نے مجسمے کا بازو توڑ دیا ۔ نوجوان کا تعلق لاہور کے علاقہ ہربنس پورہ ہے اوراس کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے ہے۔
نوجوان ظہیر کا کہنا ہے کہ رنجیت سنگھ نے مسلمانوں پرمظالم کئے تھے اس لئے وہ نہیں سمجھتے کہ یہاں اس کا مجسمہ لگایا جانا چاہیے۔ اس سے قبل 13 اگست 2019 میں بھی دو نوجوانوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے اس مجسمے کونقصان پہنچایا تھا جس کے بعد مجسمے پر کچھ عرصہ کے لیے کپڑا ڈال کر ڈھانپ دیا گیا تھا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 19 ویں صدی میں چالیس سال تک پنجاب پرحکومت کی تھی۔ یہ مجسمہ 27 جون 2019 میں سکھ مہاراجہ رنجیت کی 180 ویں برسی پر ان کی شاندارخدمات کے اعتراف میں نصب کیا گیا تھا۔ یہ مجسمہ برطانیہ میں سکھ ورثے کے ڈائریکٹربوبی سنگھ بنسال نے والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی کے تعاون سے یہاں نصب کیا تھا۔ مجسمہ فائبر اور کانسی سے تیارکیا گیا ہے۔ ایک سال کے دوران دوسری مرتبہ مجسمے کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے ۔نوجوان ظہیر مذہبی شخصیت کایہ خطاب سن کر مجسمہ توڑنے چل نکلا،شدت پسندی کے بے شمار ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہوئیں ہیں۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر سے لیکر درس دیتے استاد بھی طالب علموں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔
صد افسوس ہے کہ ریاست اور حکومت سمیت سیاسی قیادت کی جانب سے شدت پسندی اور جہالت کے تدارک کےلئے بات نہیں کی ہے۔عمران خان ہر فورم پر مذہب پر لیکر دیتے ہیں۔مگر عمران خان نے کبھی کسی شدت پسندی کے باعث رونما ہونے والے سنگین ترین واقعات پر لب کشائی نہیں کی ہے۔سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ ریاست اور حکمران طبقات میں بھی یہ عنصر موجود ہے ۔
یہاں تک رنجیت سنگھ کی بات ہے تو انہوں نے سکھ سلطنت کی بجائے پنجاب کی ریاست قائم کی اور پنجاب کو اپنی ترجیح بنائے رکھا۔ رنجیت سنگھ کی لڑائی لاہور پر قابض سنگھ لیٹروں کے ساتھ تھی۔مسلمان لاہور کے حکمران نہیں تھے۔اس لئے کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ مسلمانوں پر ظلم کیا ہو۔
ہندو ،سکھ اور مسلم پنجابیوں کے لئے یکساں اور مساوات پرمبنی نظام حکومت بنایا۔رنجیت سنگھ کی حکومت میں مسلمان پنجابی اعلیٰ عہدوں پر رہے ہیں۔عزیز الدین، نور الدین، امام الدین اور ان کی اولادیں ہیں جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت میں اعلی عہدوں پر فائز رہے ۔ جالندھر اور دوابا کے گورنر محی الدین، جنرل سلطان محمود، اور کئی اور مسلمان رنجیت کے دور میں اعلی عہدوں پر فائز تھے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے نظام انصاف میں شریعت اور شاستر دونوں کا برابری کا درجہ حاصل تھا۔ اگر کسی مسلمان کا مقدمہ ہوتا تو اس کے ساتھ شریعت کی روشنی میں فیصلہ ہوتا جب کہ ہندوؤں کے معاملات میں شاستر کا استعمال ہوتا تھا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی جائیداد سے متعلق تمام فیصلے شریعت کے حساب سے کیے جاتے تھے۔مسلمانوں کے جتنے پرانے وظائف مقرر تھے انھیں بحال کیا گیا اور اس کے علاوہ رنجیت سنگھ نے اپنے طرف سے نئے وظائف جاری کیے،ایک مسلمان طوائف سے شادی کی اور اس کے لیے ایک مسجد بھی بنوائی تھی۔
مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے تاریخ میں کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔رنجیت سنگھ کی لڑائی سکھ ،افغانی اور بدیشی لیٹروں سے تھی۔لاہور کی فتح کے موقع پر رنجیت سنگھ کا استقبال کرنے والوں میں مسلمان بھی پیش پیش تھے۔ پنجاب کے عوام رنجیت سنگھ کو نجات دہندہ کی شکل میں دیکھتے تھے۔
پنجاب حکومت تاریخی مقامات ،تاریخی شخصیات کے حوالے سے تعلیمی نصاب مرتب کرے اور غیرنصابی سرگرمیوں کے ذریعے تاریخی حقائق کو روشناس کرایا جائے تاکہ ایسے واقعات ختم ہوں ۔قبل ازیں مال روڈ لاہور میں سر گنگا رام کا مجسمہ میں توڑ دیا گیا تھا