کل گورنر پنجاب چوہدری سرور کا ایک پرانا بیان پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں گورنر صاحب نے رنجیت سنگھ کو پنجاب کا سپوت، امن پسند، مذہبی رواداری کا بہت بڑا حامی اور نہ جانے کیا کیا قرار دیا ہوا تھا۔ گورنر صاحب کا بس چلتا تو رنجیت سنگھ کو شاید صدی کا بہترین انسان قرار دے دیتے۔ ایسا نہ کرنے پر ہم گورنر صاحب کے بے حد مشکوراور شکرگزار ہیں۔
گورنر صاحب کو میں اس معاملے میں کچھ غلط نہیں سمجھتا کیونکہ ایسے لوگوں کا کتاب سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آخری کتاب بھی جو انہوں نے پڑھ رکھی ہوتی ہے وہ ان کے کورس کی آخری کتاب ہوتی ہے۔ جو کوئی کچھ بھی لکھ کر دے دے انہوں نے بغیر کچھ سمجھے پڑھ دینا ہوتا ہے۔ انہیں تاریخ سے کیا واسطہ۔ انہیں واسطہ ہے تو صرف پیسہ بنانے سے۔ مطلب ہے لوگوں پر حکومت کرنے سے، لوگوں پر اپنی ڈھاک اور اُن کے سینوں میں اپنا رعب بیٹھا نے سے۔ وہ طریقہ چاہے ٹھیک ہو یا غلط اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتی۔ انہیں کچھ لینا دینا ہے تو صرف اقتدار کے لیے سازشیں کرنے سے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے اور اگلے کو گرا کر خود اُس کی جگہ پر بیٹھنے سے۔انہیں باقی چیزوں سے کیا سروکار؟
یہ تو گورنر صاحب کا المیہ تھا۔ ہمارے یہاں تو صاحبِ علم و دانش لوگ بھی رنجیت سنگھ کو ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو ہمارا ہیرو بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ اس کو بہت بڑا مسیحا اور نہ جانے کیا کیا کچھ گردانا شروع کیا جا چکا ہے۔
ابھی کچھ دن قبل پنجابی تہذیب کا دن منایا گیا۔ جس میں پنجاب کے رہنے والوں کو چند بینر لگا کر اُن کے ہیروز سے تعارف کروایا گیا۔ جن میں شہزادہ پورس، دُلا بھٹی، رنجیت سنگھ، رائے احمد کھرل، بھگت سنگھ، سرگنگارام، اودھم سنگھ، ہری سنگھ تلوا اور دیال سنگھ مجیٹھا کی تصویریں شامل تھی۔ میں اس پر بھرپور احتجاج کرتا ہوں کیونکہ رنجیت سنگھ جیسا سفاک قاتل کچھ بھی ہو ہم پنجابیوں کا ہیرو نہیں ہو سکتا۔ اور پنجابی کلچر ڈے پر اُس کی تصویر لگانا لاکھوں، کڑوروں پنجابیوں کی توہین ہے۔ رنجیت سنگھ کی سفاکیت کی بھیٹ چڑھنے والوں کے خون سے غداری ہے۔ جس کسی نے بھی وہ پوسٹر لگوائے ہیں انہیں چاہئے اپنی اس شرمناک حرکت پر پنجابی قوم سے اجتماعی معافی مانگیں۔ شاید یار دوست سوال اٹھائیں کہ رنجیت سنگھ سکھ ہے تو ہم اِس وجہ سے اس کے مخالف ہیں۔ ایسے ناہنجاروں کو بتاتا چلو کہ اس پوسٹر پر دو کے سوا باقی تمام غیر مسلم ہیں تو ہم نے اگر اسی بات پر اعتراض کرنا ہوتا تو باقی پر بھی نقطہ اٹھاتے۔ ناکہ صرف اس سفاک شخص پر اعتراض کرتے۔ کیونکہ ہیرو کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اپنی انا کے لئیے تو کسی کو بھی ہیرو اور زمین کا شیر گردانا جا سکتا ہے۔ لیکن ہیرو ایک خاص پیمانے پر پورا اترتا ہو تو ہی اسے ہیرو مانا جاتا ہے۔ ورنہ وہ صرف چند ایک مٹھی بھر لوگوں کا ہیرو بن کر رہ جاتا ہے۔ جس کی تاریخ میں کچھ عزت نہیں ہوتی۔ سوائے ہزیمت کے ان کے حصے کچھ نہیں آتا۔
چلتے چلتے صاحب علم کی ایک اور مثال سنتے جائیے۔ جہاں ہماری کم علمی کا بھی ذکر ہے۔
میجر حسن معراج صاحب کی کتاب “ریل کی سیٹی” پڑھنے کے کچھ عرصہ تک تو میں بھی راجہ رنجیت سنگھ کو ہم پنجابیوں کا ہیرو محسن اور نجات دہندہ تسلیم کرتا آیا تھا۔
وہ تو بھلا ہو کچھ اور تاریخ دانوں کا جن کو پڑھا تو راجہ کی سفاکی مجھ پر آشکار ہوئی۔ میں اس کے مظالم سے روشناس ہوا۔
راجہ رنجیت سنگھ ایک انتہائی ظالم، سفاک، بے رحم، جلاد صفت اور جہاں سوز انسان تھا۔ بادشاہی مسجد کو اس نے اصطبل میں بدل دیا تھا۔ مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا تھا۔ اس ظالم خصلت انسان نے تین ماہ تک بادشاہی مسجد میں اذان کی آواز تک نہیں گونجنے دی تھی۔ لاہور کے بعد ملتان کو اپنی بربریت اور سفاکی کا نشانہ بنایا تھا۔ وہاں عورتوں کی عصمت دری کی اور انہیں معصوم رعایا کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا۔
کیسے لوگ ہیں جو ایک سفاک قاتل کو پنجاب کا سپوٹ کہہ کر پکارتے ہیں اور ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں پنجاب کی سرزمین اتنی بانجھ نہیں ہے کہ اسے اب ظالموں کا اپنا ہیرو بنانا پڑے