Get Alerts

سقوطِ ڈھاکہ اور اے پی ایس، سیاہ ترین دسمبر سے ہم نے کیا سیکھا؟

سقوطِ ڈھاکہ اور اے پی ایس، سیاہ ترین دسمبر سے ہم نے کیا سیکھا؟
16دسمبر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، جس میں دو المناک واقعات پیش آئے۔ 16 دسمبر 1971 سقوط ڈھاکہ کا واقعہ جس روز پاکستان کے مشرقی بازو کی علیحدگی ہوئی اور پھر ٹھیک 43 برس بعد 16 دسمبر 2014 کو سینکڑوں معصوم زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں اور سینکڑوں گھروں میں صف ماتم بچھ گیا، جب آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردوں نے اس درندگی کا مظاہرہ کیا جس پر انسانیت تاحیات شرمندہ رہے گی ۔

16 دسمبر 2014ء کی صبح 10 بجے تحریک طالبان کے 7 دہشت گرد ایف سی (فرنٹیئر کور) کے لباس میں ملبوس آرمی پبلک سکول پشاور کے پچھلے راستے سے سکول میں داخل ہوئے اور مرکزی ہال میں جاکر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی، وہاں موجود بچوں کو اپنی اندھی گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کردیا، اس کے کمروں کا رخ کیا اور کرتے کرتے پورے سکول کو یرغمال بنا لیا اور پھر یوں درس گاہ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگی۔

اسی جنگ میں 9 اساتذہ، 132 طلباء اور 3 فوجی جوان، کل ملا کر 144 افراد شہید ہوئے۔ طالبان نے طلبہ کے سامنے ان کے اساتذہ کو گولیاں ماریں اور ادارے کے سربراہ کو آگ لگا دی۔ اس قیامت خیز منظر کے باوجود دیگر اساتذہ اپنے طلباء کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان کے نذرانے پیش کرتے رہے اور بالآخر اس حالت جنگ میں ہمارے فوجی جوانوں نے اپنی ذہین حکمت عملی سے 950 بچوں اور اساتذہ کو باحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور اسی جنگ میں 7 دہشت گردوں میں سے 6 مارے گئے جبکہ 1 نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

پاکستان کی تاریخ کا یہ وہ سیاہ دن تھا جب ہر آنکھ اشکبار تھی، صرف متاثرین کے ہی گھروں میں صف ماتم نہیں بچھا ہوا تھا بلکہ پوری قوم سوگوار تھی۔ ہر ماں اپنے لختِ جگر کو لیکر اس وقت غیر محفوظ محسوس کررہی تھی، بہت سی ماؤں نے تو اپنے بچوں کو درس گاہ بھیجنا چھوڑ دیا اور اسی اثنا میں سلام ہے ان ماؤں کو جہنوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو کھویا۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے اپنے دیگر بچوں کو سکول واپس بھیج کر ہمت و جرات اور حوصلے کی نئی مثال قائم کردی۔

سلام ان طلباء کو بھی جو عینی شاہدین تھے ان سب دل دہلا دینے والے مناظر کے، جہاں انہوں نے اپنے ساتھی، اساتذہ اور بہن بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے بےدردی سے جاتے دیکھا اور کچھ عرصے بعد اسی جگہ اسی سکول میں ایک نئی زندگی کی امنگ، نیا جوش اور ولولے کے ساتھ پھر سے قدم رکھا۔ اپنے دشمنوں کو اپنے قلم کے ہتھیار سے مارنے کے جذبے کے ساتھ اس عزم کا اعادہ کیا کہ اپنوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور ان کے خوابوں کو خود پورا کرکے دیکھائے گے۔

یہ تو تھا ان غازیوں کا عزم۔۔۔ لیکن!!! ریاست نے اپنے عزم اور ارادے کا کیا پاس رکھا؟ ان شہداء کو انصاف دلانے میں اپنا کیا کردار ادا کیا؟ اس واقعے میں ملوث کتنے افراد کو سزائے موت دی؟ کتنے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا؟ کون سا نیا قانون پاس کیا؟ قوم کے تحفظ کیلئے کیا نئے اقدامات کیے؟ کیا ایسے درندوں سے محفوظ رکھنے کیلئے کوئی نئی حکمت عملی بنائی گئی؟ کیا درس گاہوں کو محفوظ بنایا گیا؟ کتنا اور کس حد تک؟

یا پھر یوں سمجھ لیں کہ یہ تاریخ ہی دہرائی گئی۔۔۔ شاید 43 برس پہلے اس بات کی بھنک پڑ گئی تھی کہ ہم ایک ناکام ریاست بننے جا رہے ہیں اور اسی لیے پاکستان دو محاذوں پر بٹ کر رہ گیا۔ داخلی کمزوریوں اور عالمی برادری کی بےحسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

تب بھی ہمارے اندرونی معاملات اور داخلی کمزوریوں سے ہمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایک قوم ہوکر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔

آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و سناں اوّل طائوس و رباب آخر

اقبال کے اس شعر میں شمشیر و سناں اور طائوس و رباب میں کوئی ’’فاصلہ‘‘ نہیں، مگر ’’عمل‘‘ کی دنیا میں قوموں کو شمشیر و سناں سے طائوس و رباب تک آتے آتے صدیاں لگ جاتی ہیں۔ ہمیں 14 اگست 1947ء سے 16 دسمبر 1971ء تک آتے آتے 24 سال لگے۔ ملک ٹوٹنے کے لیے یہ مدت بہت کم ہے لیکن دل ٹوٹنے کے لیے یہ مدت بہت زیادہ ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان پہلے دلوں میں بنا، پھر جغرافیے میں ڈھلا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ پہلے پاکستان دلوں میں ’’توڑا‘‘ گیا، بعد میں پاکستان عمل کی دنیا میں دولخت ہوا۔ سوال یہ ہے کہ 24 سال میں پاکستان کے حکمران طبقے نے ایسا کیا کیا کہ جدید دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دو ٹکڑے ہوگئی؟

اور کیا ہم نے آج تک اپنی ان غلطیوں سے کچھ سیکھا ہے؟ کیا ہم اپنی ان کوتاہیوں کو مانتے بھی ہیں؟ کیا موجودہ ریاست ان غلطیوں سے سبق سیکھ رہی ہے؟ یا پھر بس ہم ہر سال تاریخ کے یہ سیاہ دن ریاستی سطح پر دنیا کو دیکھنے کیلئے یوم سیاہ کے طور پر منا کر اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں؟ ہم آج بھی ایک قوم ہوکر مختلف جماعتوں اور نظریوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہی حالات رہے تو شاید ہم آزاد ملک میں پھر سے کسی جبری قوت کی قید میں آ جائیں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ محصل قوم ہم اپنی تاریخ سے کچھ سیکھیں نا کہ ان غلطیوں اور کوتاہیوں کو دہراتے رہیں۔ یہ ریاست کسی کے باپ کی جاگیر نہیں، قوم مل کر ایک ملک بناتی ہے۔ اپنے ملک کو بیرونی قوتوں سے بچائیں اور ایک قوم بن کر اپنا دفاع کریں۔

مصنفہ سینیئر صحافی ہیں اور ملک کے متعدد ٹی وی چینلز پر کام کر چکی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان کے مختلف ویب سائٹس پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔