Get Alerts

سقوط ڈھاکہ کے حقائق کو کس طرح منظم طریقے سے حذف کیا گیا

سقوط ڈھاکہ کے حقائق کو کس طرح منظم طریقے سے حذف کیا گیا
آج سقوط ڈھاکہ کی پچاسویں برسی منائی جا رہی ہے۔ ایک ایسا واقعہ جو بحیثیت قوم ہماری یادوں کو تاراج کرتا ہے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کو نصف صدی گزر چکی ہے جو پاکستان کے مشرقی بازو کی علیحدگی اور ریاست بنگلا دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔

16 دسمبر 1971ء ہماری تاریخ کا سب سے المناک حصہ ہے۔ تاہم، آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت اس بات سے غافل ہے کہ اس دن واقعات کیسے رونما ہوئے۔ تاریخ اور بیانیے کو دبانے اور جوڑ توڑ کرنے کی ریاست کی پالیسی کی بدولت سانحے کے بارے میں بہت سے سوالات کے جواب اور کئی حقائق پوشیدہ رہے۔

انسانی حقوق کی کارکن اور مبصر ماروی سرمد نے اعتراف کیا کہ سقوط ڈھاکہ کے بارے میں تاریخ کی اس جھوٹی داستان کا شکار ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ ان پر بہت دیر بعد یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ کس طرح مغربی پاکستان کے اشرافیہ کی طرف سے بنگالیوں کے خلاف تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

ماروی سرمد نے مزید کہا کہ ابتدائی طور پر، انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا کہ 'البدر اور الشمس جیسی دہشت گرد تنظیموں کو کس طرح جماعت اسلامی سے نکالا گیا اور مشرقی پاکستان میں تشدد کو جاری رکھنے کے لیے ان کی حمایت کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان تنظیموں کی طرف سے بربریت کے جواب میں تھا کہ مکتی باہنی بھارت نے بنائی تھی۔ میں ایک طویل عرصے تک جنگ کے دوران خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد سے بے خبر رہی کہ کس طرح عصمت دری کو مزاحمت کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

صحافی اور فلمساز بینا سرور نے کہا کہ وہ چند سال پہلے یہ جان کر حیران رہ گئی تھیں کہ بہت سے بنگالیوں کو پاکستان میں کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔ اس حیران کن حقیقت کے بارے میں ایک انتھالوجی بیونڈ بارڈرز کے ایک مضمون کے ذریعے معلوم ہوا، جس میں ایک بنگالی نے لکھا تھا کہ کس طرح اس کے پورے خاندان بشمول اس کے والد جو پاکستان ایئر فورس کے پائلٹ تھے، کو قریب ایک کیمپ میں بھیج دیا گیا۔

مصنف یاسر لطیف ہمدانی نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہوئے بڑے ہوئے کہ شیخ مجیب الرحمان ایک غدار ہے جو کسی بھی قیمت پر آزاد بنگلا دیش چاہتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے محسوس کیا کہ مجیب جو کچھ مانگ رہے تھے وہ قرارداد لاہور پر ایمانداری سے عملدرآمد تھا۔ ہمدانی نے افسوس کا اظہار کیا کہ بہتر عقل غالب ہوتی تو پاکستان اب بھی متحد ہوتا۔

دی فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر رضا رومی نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنگلا دیش کے دورے کے دوران انہوں نے جنیوا کیمپ کا دورہ کیا جہاں ہزاروں پھنسے ہوئے بہاری رہتے ہیں۔ "ان کی حالت زار دل دہلا دینے والی تھی۔ انھیں آج تک بنگلا دیشیوں کی طرف سے قبول نہیں کیا جبکہ پاکستانیوں نے انھیں ترک کر دیا، یہ کمیونٹی اس کے حق کی مستحق ہے۔