اس مضمون میں ندیم فاروق پراچہ سیاسی جماعتوں میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے دانشواری کی تایخ کا جائزہ لے رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں کیونکر سماجی اور سیاسی اصلاحات لانے میں ناکام رہیں۔
اینوئس گوئز جو برطانوی تاریخ دان ہیں اور رچمنڈ یونیورسٹی میں سیاست کے شعبہ کی پروفیسر ہیں انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ دانشور سیاستدانوں کو دنیا کے معنی تشکیل دینے میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ دانشور سیاسی جماعتوں کو نظریات اور بیانئے تشکیل دینے میں مدد فراہم کرتے ہیں جو ان کے نظریات کی روایات اور سیاسی مفادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ بہت سے مواقعوں پر دانشور امریکہ اور یورپ میں جماعتوں کی پالیسیوں اور نظریاتی بنیادیں بنانے کے عمل کا مرکزی حصہ رہے ہیں۔ گوئیز لکھتی ہیں کہ سیاستدان دراصل دانشوروں پر انحصار کرتے ہیں کہ وہ "ان کی جماعتوں کی نظریاتی اقداروں کو موجودہ مسائل کے تناظر میں از سر نو تشکیل دیں۔
جنوبی ایشیا:
جنوبی ایشیا میں بھی یہ روایت موجود رہی ہے۔ تقسیم سے پہلے مرکزی ہندوستانی اور مسلمان قوم پرست جماعتوں میں انڈیا میں دانشور اہم منصبوں پر فائز تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس میں بے شمار دانشور موجود تھے۔ ان میں سے کچھ سوشلسٹ تھے، کچھ جمہورپسند اور یہاں تک کہ ہندو قوم پرست اور مسلمان قدامت پسند دانشور بھی اس جماعت میں موجود تھے۔ ان سب نے مل کر انڈین قوم پرستی کا ایک ایسا ہم آہنگ ماڈل بنانے کی کوشش کی جو کہ انڈیا میں رہنے والی زیادہ آبادی کو متاثر کر سکے۔
انڈیا کے مسلمانوں کی مرکزی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی کانگریس کے اس رجحان کو اپنایا اور اپنی جماعت میں بے شمار مفکر اور عالم شامل کیے۔ گو مسلم لیگ کا نظریاتی تشخص سرسید احمد خان جیسے دانشوروں کی تحاریر اور شاعر اور فلسفی علامہ محمد اقبال کے گرد مرکوز تھا، لیکن یہ دونوں اس وقت انتقال کر چکے تھے جب مسلم لیگ نے 1946 کے فیصلہ کن انتخابات میں حصہ لیا۔ ان انتخابات نے انڈیا میں موجود مسلمانوں کی ایک بڑی اقلیت میں مسلم لیگ کی پوزیشن اور مقبولیت کو طے کرنا تھا۔ مسلم لیگ کو نہ صرف سیکولر اور ہندو قوم پرستوں اور کانگریس کے مسلمان عالموں کی تنقید کا سامنا تھا بلکہ اسے مختلف اسلامی تنظیموں سے منسلک شعلہ بیاں مقرروں کی جانب سے "مصنوعی مسلمانوں پر مشتمل اشرافیہ کی جماعت" بھی قرار دیا گیا۔ ان تنقید کرنے والی جماعتوں میں مجلس احرار، جمیعت علمائے اسلام ہند، اور کچھ حد تک جماعت اسلامی بھی شامل رہی۔ مسلمانوں کی مختلف طبقات، سیاسی نظریاتی، فرقوں اور ذیلی فرقوں سے وابستہ ایک بکھری آبادی کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے اور اسلام کے دو جدید تصورارت پر مشتمل بیانئے جنہیں سرسید اور اقبال نے تشکیل دیا تھا مقبول بنانے کیلئے مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح نے روایتی مذہبی نظریاتی تقسیم کے دوسری جانب کھڑے ہوئے دانشوروں کو مسلم لیگ میں شامل کیا۔
مثال کے طور پر ایک جانب مارکسسٹ دانیال لطیف کو آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور لکھے جانے کی ذمہ داری سونپی گئی جبکہ دوسری جانب اسلامی عالم شبیر احمد عثمانی کو مسلم لیگ میں شامل کیا گیا تاکہ جناح مخالف علما اور مولویوں کی تنقید کا تدارک کیا جا سکے۔ مقصد یہ تھا کہ جدید اسلامی قوم پرستی جو معتدل مزاج تھی لیکن نظریاتی بنیادیں دائیں اور بائیں بازو سے مستعار لی تھیں اسے دوام بخشا جائے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے اس عمل کا آغاز 1946 کے انتخابات سے قبل ہی کر دیا تھا جب ترقی پسند اسلامی عالم غلام احمد پرویز کو مسلم لیگ کے حمایتی جریدے طلوع اسلام کا مدیر مقرر کیا گیا۔ اس رسالے کے صفحات میں پرویز نے سرسید اور اقبال کی تحاریر اور قرآنی آیات کو استعمال کر کے مسلم لیگ کے مسلمان قوم پرستی کے بیانیے کو ایک ترقی پسند اور جدید تحریک قرار دینے کی کوش کی۔
دانشوروں کو جماعتوں میں رکھنے کی روایت کا خاتمہ تقسیم پاک و ہند کے بعد بھی نہ ہوا۔ مثال کے طور پر پنجاب میں 1953 کی احمدیہ مخالف تحریک کے دوران مسلم لیگ کی حکومت نے لبرل اسلامی رہنما ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کو پمفلٹ تحریر کرنے کی اجازت دے دی۔ پمفلٹ کا عنوان اقبال اور ملا تھا اور اس میں مولویوں کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے انہیں وہ تصورات اور جدید اسلام جو سرسید، اقبال اور جناح نے پیش کیا تھا اس کا دشمن دکھایا گیا۔ یہ پمفلٹ پنجاب بھر میں مفت تقسیم کیا گیا اس کی اور فوج کی مدد سے حکومت نے یہ تحریک کچل دی۔
ڈاکٹر ملک نے انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ (CIIR) کی سربراہی کی جس نے ایوب خان کو اس کے جدید اسلام کے تصور کو پھیلانے میں معاونت فراہم کی۔ جب 1964 میں مذہبی جماعتوں نے ایوب کی پالیسیوں کو سیکیولر قرار دے کر اس کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی تو سی آئی آئی آر کا ادارہ دانشوارانہ منطق پیش کرنے میں کامیاب رہا جس کی مدد سے ایوب نے اس وقت کی نمایاں ترین مذہبی جاعت، جماعت اسلامی پر پابندی نافذ کر دی۔ گو اس پابندی کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا لیکن ایوب خان کے عالموں نے دانشوارانہ طریقہ ڈھونڈ کر اس کے تخت کو لاحق خطرات کو ختم کر دیا۔ ڈاکٹر ملک نے فیملی لاز 1961 جیسی کئی قانونی دستاویزات تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور فیملی پلاننگ اور سود پر منبی بنکاری کے حوالے سے مذہبی آرا بھی پیش کرتے رہے۔ ایوب نے دانشور جاوید اقبال جو علامہ اقبال کے بیٹے ہیں سے بھی رابطہ کیا۔ بلکہ ڈاکٹر جاوید کی تجویز پر ہی ایوب خان نے ملک بھر کی مساجد اور مزارات کو سرکار کے قابو میں کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی دائیں بازو کی سیاست کی جانب مائل پیپلز پارٹی بھی دانشوروں سے بھری پڑی تھی۔ بھٹو نے دائیں بازو سے جارح مزاج مارکسسٹ اور سوشلسٹ مفکروں کو جماعت میں شامل کیا اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسلامی علما کو بھی شامل کیا تاکہ اپنی جماعت کے سوشلسٹ منشور کو مذہبی جماعتوں کی تنقید سے بچا کر عوام میں مقبول کر سکے۔ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے چند بڑے دانشوروں میں جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ احمد رشید، حنیف رامے، معراج خالد اور کوثر نیازی شامل تھے۔ بھٹو خود بھی مطالعے کے شوقین تھے۔ پیپلز پارٹی میں دانشوروں کو رکھنے کی روایت ابھی بھی جاری ہے لیکن اب ان کا اثر و رسوخ کم ہو گیا ہے۔
جماعت اسلامی میں بھی دانشوروں کو شامل کرنے کی روایت موجود ہے۔ اس جماعت کو 1941 میں ممتاز اسلامی عالم ابو العلیٰ مودودی نے قائم کیا۔ جماعت اسلامی کے نظریات جو زیادہ تر مودودی کے تشکیل دیے ہوئے تھے پروان چڑھانے میں نعیم صدیقی، معیشت دان ڈاکٹر خورشید احمد، پروفیسر غفور احمد وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔ البتہ گذشتہ کئی سالوں سے اس جماعت میں دانشوروں کا اثر و رسوخ کم ہو چکا ہے۔
حتیٰ کہ ضیالحق کی انتہا پرست آمریت (1977 1988) نے دو مذہبی دانشوروں کے کام پر بیحد انحصار کیا۔ یہ دو ممتاز مذہبی عالم، ابو العلیٰ مودودی اور لکھاری و جہادی ترغیبی مواد لکھنے والے بریگیڈئر ایس کے ملک تھے۔ ایک اور فوجی آمر پرویز مشرف (1999-2008) نے منطق پسند اسلامی عالم جاوید احمد غامدی کی عالمانہ کوششوں سے مستفید ہوتے ہوئے اپنی حکومت کے لبرل بیانئے کو روشن خیالی پر مبنی اعتدل پسندی کے تصور کے طور پر پیش کیا۔
پاکستان کے قیام کے بعد جناح کی مسلم لیگ کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایوب خان کی کنونشنل مسلم لیگ کے علاوہ اس کے تمام دھڑوں نے لیگ کی دانشوارانہ روایت کو نظر انداز کر دیا۔ پاکستان جیسے ملک میں ہمیشہ سے ہی ان افراد کے درمیان تناؤ اور کشیدگی موجود رہی ہے جو پاکستان کے قیام کو ترقی پسند مسلمانوں کے جمہوری ملک کے طور پر دیکھتے ہیں اور وہ جو اس کے قیام کو ایک مذہبی ریاست سے تعبیر کرتے ہیں۔ مرکزی سیاسی جماعتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اب پہلے سے زیادہ دانشوروں کی خدمات سے مستفید ہونے کی اشد ضرورت ہے جب پاکستان پرتشدد حملوں اور عسکریت پسند تنظیموں کے حملوں کا شکار ہوا جو مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتی تھیں تو اس وقت سیاسی جماعتوں اور فوج کو یہ اندازہ تک نہیں تھا کہ کیسے شدت پسندی اور دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں ایک ایسا ملک جو اسلام کے مختلف تشریحات پر مبنی گروہوں میں بٹا ہوا ہو، اس کو متحد کر کے ایک منظم جوابی کاروائی اور بیانیہ تیار کیا جائے۔ آرمی پبلک سکول پر ایک دہشت گرد حملہ اور جنرل راحیل شریف کے جارحانہ طور طریقے بالآخر ملک کی سول اور فوجی قیادت کی جانب سے جوابی کاروائی کا مؤجب بنے۔ لیکن اس مسئلے کے غیر فوجی پہلو کا کیا؟
ایک بڑی وجہ جس کے باعث مسلم لیگ نواز یا اقتدار میں موجود تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اس بات کا تعین کرنے میں ناکام رہیں کہ کیسے نیشنل ایکشن پلان میں موجود سماجی اور مذہبی اصلاحات کو نافذالعمل بنایا جائے وہ ان جماعتوں میں دانشوروں کی ناپیدگی ہے۔ بالخصوص تحریک انصاف کو کبھی دانشوروں کی خدمات میسر نہیں رہیں۔ محض سیاستدانوں کے بل بوتے پر یہ جماعتیں کبھی بھی اصلاحات کیلئے درکار ایک مؤثر اور جاندار بیانیہ تشکیل نہیں دے سکتیں اور نہ ہی اسے مؤثر طریقے سے اس سماج میں پھیلا سکتی ہیں جہاں یہ اصلاحات ان مذہبی عقائد سے متصادم تصور کی جاتی ہیں جو ہمارے لمبے عرصے پر محیط نظریاتی تجربوں کی بدولت معرض وجود میں آئے۔
اکہتر کے سانحے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1973 میں ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں تاریخ دانوں اور دانشوروں کو مدعو کیا گیا اور ان سے پاکستانی قومیت کی ایک ہم آہنگ اصطلاح تیار کرنے کو کہا گیا۔ یقیناً یہ معنی زیادہ ردعمل والے بیانئے میں تبدیل ہو گئے لیکن بہرحال ان کی بدولت ایک بکھری ہوئی قوم کو بقا کا بیانیہ ضرور حاصل ہوا۔
تحریک انصاف کی حکومت کو موجودہ دور میں اسی قسم کی کانفرنس بلانی چاہیے۔ اس کانفرنس میں سیاستدانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے افراد کو تاریخ دانوں، دانشوروں، مذہبی عالموں اور سیکیولر عالموں کے ساتھ نشست کرنی چاہیے تاکہ پاکستانی قومیت کا نیا مفہوم یا بیانیہ تشکیل دیا جا سکے۔ یہ نیا خیال اس بیانئے میں سے اخذ کرنا چاہیے جو پاکستانی قوم کو ایک جدت پسند قوم قرار دیتا ہے جو موروثی طور پر معتدل ہے اور اس شدت پسندی کے تدارک کیلئے ہم آہنگ اور یکجا ہے جس نے ملک کو عرصہ دراز تک تشدد کی قید اور جمود میں مقید رکھا۔