Get Alerts

سیاسی جماعتوں میں دانشوروں کی موجودگی، برصغیر کے تناظر میں

سیاسی جماعتوں میں دانشوروں کی موجودگی، برصغیر کے تناظر میں
اس مضمون میں ندیم فاروق پراچہ سیاسی جماعتوں میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے دانشواری کی تایخ کا جائزہ لے رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں کیونکر سماجی اور سیاسی اصلاحات لانے میں ناکام رہیں۔

اینوئس گوئز جو برطانوی تاریخ دان ہیں اور رچمنڈ یونیورسٹی میں سیاست کے شعبہ کی پروفیسر ہیں انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ دانشور سیاستدانوں کو دنیا کے معنی تشکیل دینے میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ دانشور سیاسی جماعتوں کو نظریات اور بیانئے تشکیل دینے میں مدد فراہم کرتے ہیں جو ان کے نظریات کی روایات اور سیاسی مفادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ بہت سے مواقعوں پر دانشور امریکہ اور یورپ میں جماعتوں کی پالیسیوں اور نظریاتی بنیادیں بنانے کے عمل کا مرکزی حصہ رہے ہیں۔ گوئیز لکھتی ہیں کہ سیاستدان دراصل دانشوروں پر انحصار کرتے ہیں کہ وہ "ان کی جماعتوں کی نظریاتی اقداروں کو موجودہ مسائل کے تناظر میں از سر نو تشکیل دیں۔

امریکہ کے سیکرٹری مالیات ہینری مارگینٹاہو، دانشور، لکھاری اور معیشت دان جون کینیز کے ساتھ 1920 کی دہائی کے اوائل اور 30 میں دنیا بھر میں معاشی ابتری کے بعد فرینکلن ڈی روزویلیٹ کی حکومت (ڈیموکریٹک پارٹی) اور یورپین سوشل جمہوری جماعتوں نے کینیز کے تصور کو اپنایا جو جدید فلاحی ریاست اور/یا "مکسڈ معیشت" جو سوشلزم اور روایتی کیپٹلزم کا امتزاج تھا پر مبنی تھا۔


20ویں صدی کی سیاسی جماعتیں اکثر دانشوروں سے بھری رہتی تھیں۔


چینی صدر ڈینگ ژائی پنگ (بائیں طرف) جو 1979 میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے صدر بنے، جیانگ ژیمن کے ساتھ۔ ژیمن نے ڈینگ کو چین کی ماؤ کے بعد والے عرصے میں عملیت پسندی پر مبنی پالیسی مرتب کرنے میں مدد کی- ژیمن کا نظریہ 1989 کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے نئے بیانیوں کی بنیادوں کا باعث بنا۔


70 کی دہائی کے آخری سالوں سے ارونگ کرسٹول ( پال والفوٹز کے ساتھ) نیو کنزرویٹزم کے خالق بنے۔ کرسٹل کے خیالات کو ریپلکن پارٹی نے ریگن کے دور صدارت (1981-1988) میں استعمال کیا اور جارج ڈبلیو بش کے صدارتی ادوار (2000 -2008) میں مزید پھیلایا۔


جنوبی ایشیا:

جنوبی ایشیا میں بھی یہ روایت موجود رہی ہے۔ تقسیم سے پہلے مرکزی ہندوستانی اور مسلمان قوم پرست جماعتوں میں انڈیا میں دانشور اہم منصبوں پر فائز تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس میں بے شمار دانشور موجود تھے۔ ان میں سے کچھ سوشلسٹ تھے، کچھ جمہورپسند اور یہاں تک کہ ہندو قوم پرست اور مسلمان قدامت پسند دانشور بھی اس جماعت میں موجود تھے۔ ان سب نے مل کر انڈین قوم پرستی کا ایک ایسا ہم آہنگ ماڈل بنانے کی کوشش کی جو کہ انڈیا میں رہنے والی زیادہ آبادی کو متاثر کر سکے۔

سردار پٹیل اور ابوالکلام آزاد انڈین نیشنل کانگریس کے دو اہم ارکان رہے۔ دونوں سیاسی مفکر بھی تھے۔ پٹیل نے کانگریس کے ہندو قوم پرست رجحان پر اثر ڈالا جبکہ آزاد کی تحاریر نے مسلمانوں کی انڈین قوم پرست جماعتوں میں شمولیت کو درست قرار دیا۔ جبکہ کانگریس کا سوشلسٹ بیانیہ جواہر لال نہرو کے خیالات کے گرد گھومتا تھا۔


انڈیا کے مسلمانوں کی مرکزی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی کانگریس کے اس رجحان کو اپنایا اور اپنی جماعت میں بے شمار مفکر اور عالم شامل کیے۔ گو مسلم لیگ کا نظریاتی تشخص سرسید احمد خان جیسے دانشوروں کی تحاریر اور شاعر اور فلسفی علامہ محمد اقبال کے گرد مرکوز تھا، لیکن یہ دونوں اس وقت انتقال کر چکے تھے جب مسلم لیگ نے 1946 کے فیصلہ کن انتخابات میں حصہ لیا۔ ان انتخابات نے انڈیا میں موجود مسلمانوں کی ایک بڑی اقلیت میں مسلم لیگ کی پوزیشن اور مقبولیت کو طے کرنا تھا۔ مسلم لیگ کو نہ صرف سیکولر اور ہندو قوم پرستوں اور کانگریس کے مسلمان عالموں کی تنقید کا سامنا تھا بلکہ اسے مختلف اسلامی تنظیموں سے منسلک شعلہ بیاں مقرروں کی جانب سے "مصنوعی مسلمانوں پر مشتمل اشرافیہ کی جماعت" بھی قرار دیا گیا۔ ان تنقید کرنے والی جماعتوں میں مجلس احرار، جمیعت علمائے اسلام ہند، اور کچھ حد تک جماعت اسلامی بھی شامل رہی۔ مسلمانوں کی مختلف طبقات، سیاسی نظریاتی، فرقوں اور ذیلی فرقوں سے وابستہ ایک بکھری آبادی کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے اور اسلام کے دو جدید تصورارت پر مشتمل بیانئے جنہیں سرسید اور اقبال نے تشکیل دیا تھا مقبول بنانے کیلئے مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح نے روایتی مذہبی نظریاتی تقسیم کے دوسری جانب کھڑے ہوئے دانشوروں کو مسلم لیگ میں شامل کیا۔

مثال کے طور پر ایک جانب مارکسسٹ دانیال لطیف کو آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور لکھے جانے کی ذمہ داری سونپی گئی جبکہ دوسری جانب اسلامی عالم شبیر احمد عثمانی کو مسلم لیگ میں شامل کیا گیا تاکہ جناح مخالف علما اور مولویوں کی تنقید کا تدارک کیا جا سکے۔ مقصد یہ تھا کہ جدید اسلامی قوم پرستی جو معتدل مزاج تھی لیکن نظریاتی بنیادیں دائیں اور بائیں بازو سے مستعار لی تھیں اسے دوام بخشا جائے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے اس عمل کا آغاز 1946 کے انتخابات سے قبل ہی کر دیا تھا جب ترقی پسند اسلامی عالم غلام احمد پرویز کو مسلم لیگ کے حمایتی جریدے طلوع اسلام کا مدیر مقرر کیا گیا۔ اس رسالے کے صفحات میں پرویز نے سرسید اور اقبال کی تحاریر اور قرآنی آیات کو استعمال کر کے مسلم لیگ کے مسلمان قوم پرستی کے بیانیے کو ایک ترقی پسند اور جدید تحریک قرار دینے کی کوش کی۔

سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کے عالمانہ کام نے آل انڈیا مسلم لیگ کے مسلمان قوم پرست اور جدید اسلام پر مبنی بیانیوں کی بنیاد رکھی۔


مارکسسٹ مفکر اور دانشور دانیال لطیف کو جناح نے مسلم لیگ میں شامل کیا اور مسلم لیگ کا 1944 کا منشور لکھنے کی ذمہ داری سونپی۔


اسلامی عالم شبیر احمد نے جناح اور مسلم لیگ مخالف بیانئے کے خلاف بطور جواب مذہبی دلائل پر مبنی بیانیہ تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔


دانشوروں کو جماعتوں میں رکھنے کی روایت کا خاتمہ تقسیم پاک و ہند کے بعد بھی نہ ہوا۔ مثال کے طور پر پنجاب میں 1953 کی احمدیہ مخالف تحریک کے دوران مسلم لیگ کی حکومت نے لبرل اسلامی رہنما ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کو پمفلٹ تحریر کرنے کی اجازت دے دی۔ پمفلٹ کا عنوان اقبال اور ملا تھا اور اس میں مولویوں کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے انہیں وہ تصورات اور جدید اسلام جو سرسید، اقبال اور جناح نے پیش کیا تھا اس کا دشمن دکھایا گیا۔ یہ پمفلٹ پنجاب بھر میں مفت تقسیم کیا گیا اس کی اور فوج کی مدد سے حکومت نے یہ تحریک کچل دی۔

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اور ان کا 1953 کا تیار کردہ پمفلٹ


ڈاکٹر ملک نے انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ (CIIR) کی سربراہی کی جس نے ایوب خان کو اس کے جدید اسلام کے تصور کو پھیلانے میں معاونت فراہم کی۔ جب 1964 میں مذہبی جماعتوں نے ایوب کی پالیسیوں کو سیکیولر قرار دے کر اس کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی تو سی آئی آئی آر کا ادارہ دانشوارانہ منطق پیش کرنے میں کامیاب رہا جس کی مدد سے ایوب نے اس وقت کی نمایاں ترین مذہبی جاعت، جماعت اسلامی پر پابندی نافذ کر دی۔ گو اس پابندی کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا لیکن ایوب خان کے عالموں نے دانشوارانہ طریقہ ڈھونڈ کر اس کے تخت کو لاحق خطرات کو ختم کر دیا۔ ڈاکٹر ملک نے فیملی لاز 1961 جیسی کئی قانونی دستاویزات تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور فیملی پلاننگ اور سود پر منبی بنکاری کے حوالے سے مذہبی آرا بھی پیش کرتے رہے۔ ایوب نے دانشور جاوید اقبال جو علامہ اقبال کے بیٹے ہیں سے بھی رابطہ کیا۔ بلکہ ڈاکٹر جاوید کی تجویز پر ہی ایوب خان نے ملک بھر کی مساجد اور مزارات کو سرکار کے قابو میں کر دیا۔

پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خان (1958 -1969) نے غلام احمد پرویز اور لبرل اسلامی عالم ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو قریبی مشیر کے طور پر تعینات کیا۔


ذوالفقار علی بھٹو کی دائیں بازو کی سیاست کی جانب مائل پیپلز پارٹی بھی دانشوروں سے بھری پڑی تھی۔ بھٹو نے دائیں بازو سے جارح مزاج مارکسسٹ اور سوشلسٹ مفکروں کو جماعت میں شامل کیا اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسلامی علما کو بھی شامل کیا تاکہ اپنی جماعت کے سوشلسٹ منشور کو مذہبی جماعتوں کی تنقید سے بچا کر عوام میں مقبول کر سکے۔ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے چند بڑے دانشوروں میں جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ احمد رشید، حنیف رامے، معراج خالد اور کوثر نیازی شامل تھے۔ بھٹو خود بھی مطالعے کے شوقین تھے۔ پیپلز پارٹی میں دانشوروں کو رکھنے کی روایت ابھی بھی جاری ہے لیکن اب ان کا اثر و رسوخ کم ہو گیا ہے۔

مارکسسٹ نظریات کے دانشور جےاے رحیم ذوالفقار بھٹو کی پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔


سوشلسٹ مفکر ڈاکٹر مبشر حسن بھی پیپلز پارٹی کے بانی رکن تھے۔


کوثر نیازی ذوالفقار بھٹو کے ہمراہ۔ کوثر نیازی اسلامی عالم تھے اور انہیں مذہبی جماعتوں کی اپوزیشن سے نمٹنے کیلئے پیپلز پارٹی میں لایا گیا۔


دانشور، شاعر اور مصور حنیف رامے۔ حنیف رامے نے پیپلز پارٹی میں "اسلامی سوشلزم" کا تصور متعارف کروایا۔


جماعت اسلامی میں بھی دانشوروں کو شامل کرنے کی روایت موجود ہے۔ اس جماعت کو 1941 میں ممتاز اسلامی عالم ابو العلیٰ مودودی نے قائم کیا۔ جماعت اسلامی کے نظریات جو زیادہ تر مودودی کے تشکیل دیے ہوئے تھے پروان چڑھانے میں نعیم صدیقی، معیشت دان ڈاکٹر خورشید احمد، پروفیسر غفور احمد وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔ البتہ گذشتہ کئی سالوں سے اس جماعت میں دانشوروں کا اثر و رسوخ کم ہو چکا ہے۔

ابو العلیٰ مودودی بائیں جانب اور ڈاکٹر خورشید دائیں جانب (1964)


حتیٰ کہ ضیالحق کی انتہا پرست آمریت (1977 1988) نے دو مذہبی دانشوروں کے کام پر بیحد انحصار کیا۔ یہ دو ممتاز مذہبی عالم، ابو العلیٰ مودودی اور لکھاری و جہادی ترغیبی مواد لکھنے والے بریگیڈئر ایس کے ملک تھے۔ ایک اور فوجی آمر پرویز مشرف (1999-2008) نے منطق پسند اسلامی عالم جاوید احمد غامدی کی عالمانہ کوششوں سے مستفید ہوتے ہوئے اپنی حکومت کے لبرل بیانئے کو روشن خیالی پر مبنی اعتدل پسندی کے تصور کے طور پر پیش کیا۔

بریگیڈئیر صدیق ملک کی کتاب "ریاست کا جہاد" کو ضیاالحق نے بھرپور طریقے سے مشتہر کروایا۔


جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار (1999 تا 2008) کے دوران اکثر و بیشتر ترقی پسند مذہبی عالم جاوید احمد غامدی سے صلاح مشورے کیے۔


پاکستان کے قیام کے بعد جناح کی مسلم لیگ کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایوب خان کی کنونشنل مسلم لیگ کے علاوہ اس کے تمام دھڑوں نے لیگ کی دانشوارانہ روایت کو نظر انداز کر دیا۔ پاکستان جیسے ملک میں ہمیشہ سے ہی ان افراد کے درمیان تناؤ اور کشیدگی موجود رہی ہے جو پاکستان کے قیام کو ترقی پسند مسلمانوں کے جمہوری ملک کے طور پر دیکھتے ہیں اور وہ جو اس کے قیام کو ایک مذہبی ریاست سے تعبیر کرتے ہیں۔ مرکزی سیاسی جماعتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اب پہلے سے زیادہ دانشوروں کی خدمات سے مستفید ہونے کی اشد ضرورت ہے جب پاکستان پرتشدد حملوں اور عسکریت پسند تنظیموں کے حملوں کا شکار ہوا جو مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتی تھیں تو اس وقت سیاسی جماعتوں اور فوج کو یہ اندازہ تک نہیں تھا کہ کیسے شدت پسندی اور دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں ایک ایسا ملک جو اسلام کے مختلف تشریحات پر مبنی گروہوں میں بٹا ہوا ہو، اس کو متحد کر کے ایک منظم جوابی کاروائی اور بیانیہ تیار کیا جائے۔ آرمی پبلک سکول پر ایک دہشت گرد حملہ اور جنرل راحیل شریف کے جارحانہ طور طریقے بالآخر ملک کی سول اور فوجی قیادت کی جانب سے جوابی کاروائی کا مؤجب بنے۔ لیکن اس مسئلے کے غیر فوجی پہلو کا کیا؟

ایک بڑی وجہ جس کے باعث مسلم لیگ نواز یا اقتدار میں موجود تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اس بات کا تعین کرنے میں ناکام رہیں کہ کیسے نیشنل ایکشن پلان میں موجود سماجی اور مذہبی اصلاحات کو نافذالعمل بنایا جائے وہ ان جماعتوں میں دانشوروں کی ناپیدگی ہے۔ بالخصوص تحریک انصاف کو کبھی دانشوروں کی خدمات میسر نہیں رہیں۔ محض سیاستدانوں کے بل بوتے پر یہ جماعتیں کبھی بھی اصلاحات کیلئے درکار ایک مؤثر اور جاندار بیانیہ تشکیل نہیں دے سکتیں اور نہ ہی اسے مؤثر طریقے سے اس سماج میں پھیلا سکتی ہیں جہاں یہ اصلاحات ان مذہبی عقائد سے متصادم تصور کی جاتی ہیں جو ہمارے لمبے عرصے پر محیط نظریاتی تجربوں کی بدولت معرض وجود میں آئے۔

اکہتر کے سانحے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1973 میں ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں تاریخ دانوں اور دانشوروں کو مدعو کیا گیا اور ان سے پاکستانی قومیت کی ایک ہم آہنگ اصطلاح تیار کرنے کو کہا گیا۔ یقیناً یہ معنی زیادہ ردعمل والے بیانئے میں تبدیل ہو گئے لیکن بہرحال ان کی بدولت ایک بکھری ہوئی قوم کو بقا کا بیانیہ ضرور حاصل ہوا۔

تحریک انصاف کی حکومت کو موجودہ دور میں اسی قسم کی کانفرنس بلانی چاہیے۔ اس کانفرنس میں سیاستدانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے افراد کو تاریخ دانوں، دانشوروں، مذہبی عالموں اور سیکیولر عالموں کے ساتھ نشست کرنی چاہیے تاکہ پاکستانی قومیت کا نیا مفہوم یا بیانیہ تشکیل دیا جا سکے۔ یہ نیا خیال اس بیانئے میں سے اخذ کرنا چاہیے جو پاکستانی قوم کو ایک جدت پسند قوم قرار دیتا ہے جو موروثی طور پر معتدل ہے اور اس شدت پسندی کے تدارک کیلئے ہم آہنگ اور یکجا ہے جس نے ملک کو عرصہ دراز تک تشدد کی قید اور جمود میں مقید رکھا۔