سر سید کے جدید تعلیم کے تصور سے استفادہ کیا جائے، شرکاء سرسید تعلیم کانفرنس

سر سید کے جدید تعلیم کے تصور سے استفادہ کیا جائے، شرکاء سرسید تعلیم کانفرنس
لاہور: ادارہ برائے سماجی انصاف اورمیرخلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کے زیراہتمام '' سرسید تعلیم کانفرنس'' کا انعقاد ہوا۔ کانفرنس کے شرکاء نے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر پاک و ہند کے تعلیمی روشن خیالی کی خاطر سرسید احمد خان کے نظریات سے پاکستان کی موجودہ تعلیمی پالیسی میں مدد لی جائے۔ کانفرنس میں مورخین، ماہرین تعلیم، دانشور، طلباء اور سرکاری عہدیداران نے شرکت کی جن میں ڈاکٹرمراد راس (وزیر تعلیم، پنجاب)، مسٹر اعجاز عالم آگسٹین (وزیر برائے انسانی حقوق اور اقلیتی امور) ایم پی اے بشری انجم بٹ شامل جبکہ سر سید احمد خان کے پڑ پوتے سید احمد مسعود مہمان خصوصی تھے۔

مہمان خصوصی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سر سید 1817 میں دہلی میں ایک معاشرتی طور پر ممتاز اور فکری طور پر ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، جسے آخری مغل شہنشاہ، بہادر شاہ ظفر کے دربار میں ایک مقام حاصل تھا۔ اس وقت ہندوستان کی تہذیب کو نوآبادیات کے بحران کا سامنا کرنا پڑا جس نے خاص طور پر برصغیر کے مسلمانوں کو متاثر کیا تھا۔ لہذاسرسید کے خیالات اورافکار ہمارے لئے ایک مثالی نمونہ بنے اور انہوں نے ہمیں مشکلات سے لڑنے اور با وقار زندگی کو برقرار رکھنے کا درس دیا یوں سرسید احمد خان خود ایک مثال،ادارہ اور تحریک تھے۔



 

تاریخ دان اور سکالر، ڈاکٹر سید جعفر احمد نے افتتاحی تقریر میں کہا کہ سرسید نے ایک تاریخ دان کی حیثیت سے بڑھ کر لیڈرشپ کے معیار کو بڑھایا اور ایک جمہوری جذبے اور ذات پات، رنگ اور نسل کی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لئے معاشرتی اصلاحات، اخلاقی تجدید، اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے انتھک محنت کی۔ انہوں نے کہا کے سرسید کی تعلیمات کی احادیث آج کے دور میں بھی مسلمہ ہیں اور وہ عصر نو کے نقیب اور جدید تعلیم کے معمار تھی اسی لیے ان کی قومی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا گراں قدر کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مغرب کے اس جدید ذہن سے قوم کو متعارف کرایا جس کی بنیاد عقلیت پسندی اور روشن خیالی پر تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ذہن جو فرسودہ روایات میں جکڑا ہے، قدامت پسندی اور توہم پرستی کی گرفت سے آزاد ہوکر ایک روشنی سے ہم کنار ہو۔

ماہر تعلیم اور پالیسی ڈاکٹرعبدالحمید نیئر نے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں میں تعلیم کی تاریخ اور اس میں سرسید کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے سر سید کی جدید تعلیم کو متعارف کرانے میں ابتدائی اصلاح پسندی کی کوششوں، اور روایتی اسلامی تعلیم اور جدید سیکولر تعلیم کے مابین تاریخی مسابقت پرسب کی توجہ دلائی اور اس بات پر زور دے کر کہا کہ موجودہ تعلیمی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لئے سرسید کو دوبارہ پڑھنے کی تجویز  کی ضرورت ہے۔



 

تاریخ دان اور مصنف ڈاکٹر یعقوب خان بنگش نے جدید تعلیم کے ذریعہ سرسید کے ماڈل پر غور کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ سرسید کو جدید تعلیم کی اہمیت کا احساس تھا اور انہیں یقین تھا کہ یہ ہی تعلیم عوام کے لئے ترقی، امن، ہم آہنگی اور سیاسی استحکام کے مطلوبہ اہداف کو حاصل کرنے میں معاون ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کے سرسید نے 150 سال پہلے معاشرے اور انسانی ثقافت کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ اب بھی قابلِ عمل ہے۔ در حقیقت، بہت سارے اہم امور کے بارے میں سرسید کی سوچ ہمیں اب بھی ان مشکلات سے نکلنے کی بصیرت فراہم کرسکتی ہے، کیونکہ سر سید پختہ یقین رکھتے تھے کے مذہب کے معاملات پر بھی مکالمہ، تحقیق اور دلیل کا راستہ اپنانا ہوگا۔

پروفیسر جیکولین نے سرسید کے وژن پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سر سید نے تعصب کا مقابلہ کرنے اور پسماندہ افراد کو ترقی دلوانے کے لیے معیاری تعلیم کو زریعہ بنایا۔ سرسیدعلم کی طاقت کو معاشرتی تبدیلی اور تعمیر نو کا ایک مؤثر ذریعہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے ایسے اداروں کی بنیاد رکھی جو آنے والی نسلوں کے لئے روشنی کا میناربن گئے۔ انہوں نے مزید کہا، ''سرسید کی تعلیمات ہمیشہ متعلقہ ہوں گی کیونکہ انہوں نے ہمیشہ لاعلمی، توہم پرستی اور مذموم رواج کی مخالفت کی اور انہیں پخته یقین تھا کہ جدید سائنسی تعلیم کے حصول کے بغیر معاشرے میں ترقی نہیں ہوگی”۔

دانشور اور مصنف ڈاکٹرعارفہ سیدہ زہرہ نے پسماندہ افراد کو بااختیار بنانے کے لئے سرسید کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا ہے کہ سرسید اپنے دور کے اصلاح پسند اور ترقی پسند مفکر تھے۔ وہ امن اور مساوی حقوق کے حامی تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرسید نے لوگوں کو رجعت اور روایتی طرز فکر سے ہٹ کر سوچنے کی دعوت دی۔ ''وہ ایک قوم پرست اور ہندو مسلم اتحاد کے دائمی تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی ہندوستانی معاشرے خصوصا پسماندہ مسلم برادری کی تر قی اور استحکام کے لئے وقف کردی تھی”۔

 



 

آغا خان یونیورسٹی کے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ، ڈاکٹر فرید پنجوانی نے شرکاہ کی توجہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے دو جدید اصلاح کاروں کی حیثیت سے سرسید اور فضل الرحمن کے نظریہ کی طرف دلائی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فضل الرحمن اسلام کے ر وایتی ورثے تعلیم کے جدید نظریے کی روشنی میں پر کھنے میں مہارت رکھتے تھے اور ان کے دیے گیے نظریے سے اسلامی تعلیمات میں جدید استدلال کی بحالی کو تقویت ملتی ہے۔ سر سید نے نہ صرف مغرب کی سائنسی ترقی کی تعریف کی بلکہ 19 ویں صدی کی علمی تفہیم کو 20 ویں صدی میں لوگوں تک مقامی زبان میں پہنچایا۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ادارہ برائے سماجی انصاف، پیٹرجیکب نے کا نفرنس کے اختتام پر کہا کہ علی گڑھ تحریک کے بانی سرسید کی تعلیما ت اورسائنسی تعلیم کے مشن کو موجودہ دورمیں ایک بار پھر سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی اور قوم پرستی کی موجودہ لہر کے تناظر میں نفرت انگیزی سے پہلے ہی بہت نقصان ہوچکا ہے، سرسید کے وژن کو سمجھنے کے لئے ایک ایماندارانہ کوشش کی جانی چاہئے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے ماہرین تعلیم، اسکالرز، مفکرین، مصنفین، سول سوسائٹی حتی کہ سیاسی طبقے کی توجہ بھی ایک مساوی معاشرے کے مثالی نظریہ کو زندہ کرنے کی طرف ہونا چاہئے۔ ہم سرسید کی تعلیمات اور ان کی خدمات کو سمجھ کر مذہبی عدم رواداری اور پسماندگی کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔

 



 

سینئر ایڈیٹرجنگ واصف ناگی نے کانفرنس کی نظامت کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ سرسید کا نظریہ دو صدیوں سے زندہ رہا ہے کیونکہ ان کے افکار نے ہندوستان میں جدید مسلم شناخت کو فروغ دینے کی صلاحیت پیدا کی۔ سائنسی اقدار کے ساتھ اسلامی عقائد کی نئی ترجمانی اور نوجوان نسل تک تعلیمات کا ان کا نظریہ آج ایک خاص افادیت رکھتا ہے۔

ہندوستان کی جانب سے ایک خصوصی پیغام میں، سرسید کی پڑ پوتی، شیہرزادے مسعود نے کانفرنس کے لئے ایک مبارکبادی پیغام بھیجا جس میں کہا گیا کہ ''مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہے کہ میں مرحوم عظیم سرسید احمد خان کی اولاد ہوں۔ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالنے والے، میرے نانا، آفتاب احمد خان کے نام پر، آفتاب منزل، فورٹ روڈ، علی گڑھ میں رہائش پذیر رہی ہوں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قانونی فقہ پڑھا چکی ہوں۔ مجھے اپنی اور اے ایم یو کے تمام طلباء کی جانب سے لاہور میں سرسید تعلیم کانفرنس کی کامیابی کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے بڑی خوشی ہے۔