اورنگزیب کی روح یقیناً خوشی سے سرمست ہو گی۔ اسلامی قلعے میں رقصں، جلترنگ، سرود، وچتروینا، ستار،سربہار، پکھاوج، سر منڈل، تانپورہ، سارنگی اورسنتورکے جہنم واصل ہونے کے بعد موسیقی کا سب سے اہم ترین جزو طبلہ اب آخری سانسیں لے رہا ہے۔
راگ ہو یا ٹھمری، غزل ہو یا قوالی، گیت ہو یا لچر سے لچر گانا، طبلےبِناادھورا!
اسلامی قلعہ درج بالا علتوں کے ساتھ ظہور پزیر ہوا تھا۔ دھیرے دھیرے ایک ایک کر کےسب اپنی موت آپ مر گئیں۔ پر طبلہ انتہائی ڈھیٹ نکلا۔ عمر خضر لے کر پیدا ہوا تھا۔ مرنے کا نام ہی نہ لیتا۔ سنگت کا جو ساز تھا، اتنی آسانی سے کیسے مر سکتا تھا!سارنگی بھی سنگت کا ساز تھا لیکن جلد داغِ مفارعت دے گیا۔ سن دو ہزار کے بعد سارنگی کا کوئی ولی وارث نہ رہا۔
تنت کاری اور رقص کو یہاں پنپنے کا موقع نہ ملا۔ سارا زور غزل گائیکی پر رہا۔ ہمارے پاس مہدی حسن، امانت علی، فریدہ خانم، زاہدہ پروین، نور جہاں، غلام علی وغیرہ وغیرہ تھے۔ لہذا غزل اس گھر کی لونڈی ٹھہری ۔ طبلے کے بغیر یہ نہ گائی جا سکتی تھی۔ ایک وقت تھا جہاں بِنا سارنگی، تانپورہ اور سرمنڈل گانا بدعت سمجھا جاتا تھا۔ مہدی صاحب سرمنڈل استعمال کیا کرتے تھے۔ جلد وقت ایسا آیا کہ غزل میں صرف طبلہ اور ہارمونیم رہ گئے۔ اب یہ بھی عالم نزاع میں ہیں۔
ہارمونیم کے بغیر گانا سیکھنا ناممکن ہے۔ پورے پنڈی میں اسکا ایک بھی اچھا کاریگر نہیں۔ ٹیوننگ تک کے لئے لاہور جانا پڑتا ہے۔ قریب پندرہ برس پہلے مشتاق نامی ایک کاریگر ہوا کرتا تھا۔ اب وہ گوجرانوالہ میں ترکھان کا کام کرتا ہے۔ برقی سینتھے سائزر نے ہارمونیم کو بے دخل کر دیا ہے۔ اسی طرح برقی تانپورے اور سر منڈل نے اصلی تان پورے اور سر منڈل کی ضروت یکسر ختم کر دی۔ اب تو بھارت کے نامور گویے بھی تانپورے اور سر منڈل کی موبائل ایپ استعمال کرنے لگے ہیں۔
جن گیتوں سے ( اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے، اپنی جان نذر کروں، اے وطن پیارے وطن) اپنے تئیں سن پیسنٹھ میں ہندوستان کو شکستِ فاش دی تھی آج ان ہی نغموں کو پھر سے گانا کیلئے سنگت کیلئے ڈھنگ کا طبلیہ میسر نہیں جو جھول، بولوں کی نفاست اور کنار کے میٹھے سر سے ان کے حسن کو چار چاند لگا سکے۔ سارا کام برقی سازوں سے چلایا جا رہا ہے۔
اسی زمین نے طبلے کو پنجاب گھرانہ عطا کیا۔ آج کی دنیا کے طبلے کا بے تاج بادشاہ ذاکر حسین اسی گھرانے کا ہے۔استاد کریم بخش پیرنا، استاد شوکت حسین، میاں طالب حسین، استاد اختر حسین، خلیفہ اختر، خلیفہ ارشاد وغیرہ کے گذر جانے کے بعد اب اس سرزمین پراستاد لیول کے صرف دو ہی طبلئے رہ گئے ہیں جو عمر کے آخری حصے میں بھی فن و ریاضت کے عروج پر ہیں۔ ایک استاد طافو خان اور دوسرے استاد طاری خان۔ دونوں پنجاب گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔انکے بعد بھی کچھ ہیں مگر بلندی کے اس مقام پر نہیں جو ان کا مسکن ہے۔
غزل گیت کی سنگت کیلئے جو جھول اور ٹھیکا طافو اور تاری نے نکالا اس کا ساری دنیا میں جواب نہیں۔ غلام علی اور مہدی حسن کی ایسی غزلیں سنئیے جس میں سنگت تاری کی نہ ہو۔ پھیکی لگیں گیں۔ زوال کا عالم ملاحظہ ہو اب تاری طبلہ چھوڑ کر مہدی صاحب کی غزلیں گانے پر مجبور ہے۔ ہائے پاپی پیٹ! وجہ سیدھی ہے۔ پرانی طرز کی غزل اب کوئی گاتا نہیں۔ جو گاتا ہے خود اسے پیسے اتنے کم ملتے ہیں کہ وہ تاری کا معاوضہ بطور "طبلیا غزل سنگت" دینے سے قاصر ہے۔ نتیجتاً برقی ردم یا بالکل ہی پیدل طبلیہ جو ہزار پانسو میں مل جاتا ہےپر اکتفا کیا جاتا ہے۔
خیال گائیکی کا وجود تو اب خواب و خیال میں ہی ملتا ہے۔ استاد سلامت علی خاں کے گذر جانے کے بعد ایسے طبلیوں کی چنداں ضرورت نہ رہی جو مہارت سے ایکتالہ بٹھا کر، جھمرہ، تلواڑہ، دیپ چندی، ایک وائی یا فردوست لگا سکیں۔
آج کا طبلیہ اتنا ہی سیکھتا ہے جس سے دھاڑی لگ جائے۔ قوالی ابھی مری نہیں سو کہروے دادرے سے یہ ڈھائی سے تین ہزار فی محفل کما لیتا ہے۔ اسے کیا ضرورت ایسا علم حاصل کرنے کی جو تان سین کیساتھ سنگت کیلئے چاہیے۔ پچھلے دنوں تاری کے ایک شاگرد سے ملاقات ہوئی۔ بہت اچھا کہروا بجا رہا تھا لیکن تین تال کا سیدھا ٹھیکہ(جو طبلے کا بنیادی سبق ہے) لگانے سے قاصر تھا۔
ایک اور بری خبر یہ ہے کہ اب طبلہ بنانیوالے بھی ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں ہر ساز بنتا تھا۔ اب عالم یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک بھی ایسا کاریگر نہیں جو سرود بنا سکے۔ بنانا تو دور کی بات اس ساز کی کھال تبدیل کرونے کے لیے بھی کلکتے کا رخ کرنا پڑتا ہے
کوئی بیس برس پہلے پنڈی میں چار پانچ اچھا طبلہ تیار کرنے والے ہوا کرتے تھے۔ ان میں زیادہ تر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ کچھ کی اولاد اس کام میں آئی تو ضرور لیکن سنجیدگی سے نہیں۔ علم بھی پورا نہ تھا۔ نتیجتاً اب کام ڈنگ ٹپاؤ ہے۔ لاہور میں صورتحال اتنی خراب نہیں، مگر حوصلہ افزاء بھی نہیں۔ ملک سے باہر اچھے طبلہ نواز مثلاً استاد شہباز حسین پاکستانی طبلہ سازوں سے تنگ آ کر بالاآخر ہندوستان سے طبلے بنوانے شروع ہو گئے ہیں۔ انٹرنیٹ، آن لائن بینکنگ، واٹس ایپ نے یہ کام آسان کر دیا ہے۔ آرڈر آن لائن بک ہو جاتا ہے۔ رقم کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ یا بذریعہ تار ہو جاتی ہے۔ اور طبلہ کتنا اچھا بنا، کیا کمی بیشی رہی، یہ سب جانچ پڑتال واٹس ایپ پر ہو جاتی ہے۔ اور بذریعہ ہوائی جہاز طبلہ گھر پہنچ جاتا ہے۔
خود پاکستانی طبلہ سازوں نے لالچ، بے وقوفی اور غیر ذمہ دار رویہ سے رہے سہے طبلہ نوازوں کو بھی کھو دیا۔ ابھی بھی یہاں ایسے طبلہ ساز موجود ہیں جو ہندستان کے مقابلے کا طبلہ بنا سکتے ہیں۔ بایاں یعنی بیس ڈرم تو اب بھی جیسا پاکستان میں بنتا ہے ایسا بھارت میں نہیں ملتا۔ مگر ہمارے یہاں رویہ بچگانہ ہے۔
اس وقت پنڈی میں شاہ اللہ دتہ روڈ پر قریب درجن بھر طبلہ ساز دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کام کو سنجیدگی سے لے۔ شاید بنانا آتا ہو مگر بنا کر دیتے نہیں۔ اندھوں میں ایک کانا ہے جس کا نام لبا مجاہد ہے۔ اچھا کام کرتا ہے مگر اتنی تاخیر سے کہ بندہ تنگ آ کر طبلے کو ہی خیر باد کہہ دے۔ یہ پیسے پورے اینٹھ لے گا پھر آپ کو چکر پر چکر لگوائے گا۔ اس کے اسی رویہ سے تنگ پنڈی اور اسلام آباد کے مقامی طبلہ نواز اپنا طبلہ لاہور سے بنوانا شروع ہو گئے ہیں باوجودیکہ یہ مہنگا پڑتا ہے۔آج کی تارٰیخ میں تو طبلہ لاہور میں بن رہا ہے، مرمت بھی ہو رہا ہے۔ مگر حالات ایسے ہی رہے تو وہ وقت دور نہیں جب اس کی مرمت کیلئے لاہور کے اڑوس پڑوس یعنی بھارت جانا پڑ ے۔
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔