عبدالستار تاری - جس کے پائے کا طبلہ نواز آج دنیا میں موجود نہیں

عبدالستار تاری - جس کے پائے کا طبلہ نواز آج دنیا میں موجود نہیں
طبلہ بجانا پہلوانی سے کم نہیں۔ پہلوان تو تیس چالیس برس میں فارغ ہو جاتا ہے۔ بہت سارے طبلیوں کا دم خم بھی لگ بھگ اسی عمر میں ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر ریاضت سے انسان بڑھتی عمر کو بھی شکست دے سکتا ہے۔ دنیائے موسیقی میں اس قسم کی چند مثالیں موجود ہیں۔

احمد جان تھرکوا 84 برس کی عمر میں بھی سٹیج پر طبلہ بجا رہے تھے۔ شیو کمار شرما جن کا حال ہی میں انتقال ہوا بھی 84 برس کی عمر میں سنتور بجا رہے تھے۔ مگر سنتور پہلوانی والا ساز نہیں۔ طبلے بجانے کے لئے جس زاویے سے بیٹھنا پڑتا ہے وہ انسان کے گٹے گوڈے توڑنے کے لئے کافی ہے۔ میں ذاتی طور پر کچھ ایسے فنکاروں کو جانتا ہوں جو ستر برس کے ہو چکے مگر ان کا فن ابھی تک جوان ہے۔ آج کا مضمون طبلہ نواز عبدالستار تاری کے بارے میں ہے۔

تاری 70 برس کے ہونے والے ہیں۔ پر نہ تو ان کے طبلے کی رفتار کم ہوئی، نہ انگلیوں اور ہاتھ کا وزن ہلکا ہوا۔ نہ انہیں دیر تک سٹیج پر بجانے کے لئے اپنی بھیٹک تبدیل کرنا پڑی۔ اور نہ کچھ ایسا ہوا جیسا سب ہی کے ساتھ اتنے عرصے میں ہو ہی جاتا ہے۔ یعنی اپنے کام کو دہرانا۔ وہی گھسا پٹا کام ہر سب ملن میں پیش کر دیا۔

تاری کا طبلہ دن بہ دن نکھر رہا ہے۔ اور کھٹن سے کھٹن ہوتا جا رہا ہے۔ اگر میں تکنیکی چیزوں کو لکھنا شروع کر دوں تو عام قاری بیزار ہو جائے گا۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ طبلے کے بول تو ساری دنیا میں ایک جیسے ہی ہیں جیسے بارہ سر ہیں۔ مگر سر لگانے کے طریقے سے فنکار امر ہوتا ہے۔ تاری کے کام میں یہ بات اتم پائی جاتی ہے۔ ایک تو طبلہ اتنا مکمل سر ہوتا ہے کہ سننے والے کے کانوں میں رس گھولتا ہے۔ اور رتی برابر بھی سر اوپر نیچے ہو جائے تو تاری کو فوراً محسوس ہو جاتا ہے۔ جب تک طبلہ دوبارہ اسی سر پر نہ آئے تاری نہیں بجانے کا۔ میں نے تاری کو دیکھا ہے طبلہ سر کرتے۔ بیس بیس منٹ بیت جاتے ہیں پر طبلہ ایسا سر ہوتا ہے کی جیسے طانپورہ بول رہا ہوں۔ شہد جیسی مٹھاس ہے اس فنکار کے طبلے میں۔

تاری کا سب سے بڑا احسان موسیقی پر سنگت کے حوالے سے ہے۔ ساری دنیا کے طبلیے سن لیں۔ کیا ذاکر حسین، کیا آنندو چٹرجی کیا کمار بوس اور ان سب کے بزرگ، جو سنگت غزل، گیت، قوالی، فلمی گانے اور بلمبپت میں کلاسیکل گانے میں تاری نے کی، کسی اور سے ہو ہی نہ سکی۔ غلام علی کی کامیابی میں تاری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ چند وجوہات کی بنا پر غلام علی اور تاری کی جوڑی ٹوٹ گئی۔ کیوں؟ یہ لمبی بات ہے۔ پھر کبھی سہی! غزل گیت کی سنگت میں ایک ہی school of thought ہے اور وہ ہے تاری!

تو جناب غلام علی نے ذاکر حسین کو طبلے پر رکھ لیا۔ میں نے زندگی میں ایسی بیکار سنگت نہیں سنی حالانکہ میں ذاکر بھائی کا بہت بڑا پرستار ہوں اور اگر آج طبلہ سیکھ رہا ہوں تو ان ہی کی وجہ سے۔ وہ نہ ہوتے تو میں بھی طبلہ نہ سیکھ رہا ہوتا۔ کچھ سر پیر نہ تھا اور غلام علی کی غزل کا مکمل ستیا ناس ہوا۔ یہ ہی نصرت فتح علی خان کے ساتھ ہوا جب ذاکر نے ان کے ساتھ سنگت کی۔ لیکن جب آپ کسی کی بھی غزل سنتے ہیں اور سنگت ہو تاری کی تو غزل تو بھول جاتی ہے۔ سارا دھیان تاری کے طبلے کی جانب مبذول ہو جاتا ہے۔ تاری کو نکال دو۔ غزل پھیکی اور بے رنگ۔ بے کار سے بے کار غزل گانے والا بھی اگر تاری کو رکھ لے تو اس کے کام کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

کلاسکیل گویے کے ساتھ گاڑ کر تلواڑہ یا ایک تال یہ جھمرہ لگانا۔ یہ سب ہندوستان میں بھی ختم ہو گیا۔ صرف استاد امیر خان صاحب ہی گڑی لے کا گانا گاتے تھے۔ یہ بیٹھی لے کی سنگت تو بس دو ہی لوگ کر سکتے تھے۔ ایک تاری اور دوسرے ان کے استاد میاں شوکت حسین!

ستاریے لے بٹھا کر نہیں بجاتے۔ بہت ہوا تو دو درجے بٹھا دی۔ استاد شریف خان صاحب ایسے ستاریے تھے جو لے کو خطرناک حد تک بٹھا کر بجاتے تھے۔ ان کے ساتھ کھل کر صرف شوکت صاحب اور تاری ہی بجائے۔ 60 کی دہائی میں شریف خان صاحب کو بمبئی میں بجانے کا اتفاق ہوا۔ اس محفل میں پنڈت روی شنکر بھی تھے۔ طبلے پر ذاکر کے والد استاد اللہ رکھہ تھے۔ وہ ریکارڈنگ بہت سے لوگوں کے پاس ہے۔ میرے پاس بھی ہے۔ اسے سنیے۔ اللہ رکھہ جی کو سم نہیں مل رہا۔ بس ادھر ادھر جا رہے ہیں۔ یہ ریکارڈنگ میں نے مایہ ناز ستار نواز استاد شاہد پرویز کے سامنے بجائی۔ شاہد بہت بڑے لے کار ہیں۔ وہ بھی مانے کہ سم نہیں مل رہا۔ لیکن چونکہ وہ اللہ رکھہ سے پیار کرتے ہیں تو بولے کہ اصل میں خاں صاحب کچھ ایسے ڈھنگ سے بجا رہے ہیں کہ طبلے والے کو دھوکہ ہوتا ہے کہ سم یہ ہے۔ ارے نہیں۔ سم یہ ہے۔ چلو سم نہ ملا مگر سنگت بھی پھیکی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ رکھہ گئے گذرے تھے۔ ان کا سولو میں کام عظمت کے درجے پر ہے اور ساری دنیا اس کی متعرف ہے۔ مگر سنگت ان کے بس کا کام نہیں۔

میرے ایک دوست ہیں لندن میں۔ طبلہ بجاتے ہیں۔ کل پرسوں بات ہو رہی تھی۔ بولے تاری آل راونڈر طبلہ نواز ہے۔ میں نے کہا آل راونڈر نہیں کہہ سکتے کیونکہ انہوں نے رقص میں کسی کی سنگت نہیں کی۔ اس پر وہ بولے کہ کیا آپ نے ذاکر کی سنگت غزل میں سنی ہے؟ میں نے کہا بہت ہی بری ہے۔ وہ جھٹ سے بولے بس تاری کی اتنی بری نہیں ہوگی اگر وہ نرتکار کے ساتھ سنگت کرے۔ میں بہت محظوظ ہوا یہ سن کر اور ان کو داد دی۔

تاری کے بجانے میں بے پناہ مشکلات ہیں۔ جس نکاس سے وہ بجاتے ہیں اسے ہاتھ میں لانے کے لئے صدیاں درکار ہیں۔ یوٹیوب پر ہر ٹٹ پونجیا تاری کو ہی کاپی کر رہا ہے۔ میں ان سب سے پوچھتا ہوں کہ تمہارے بجانے میں تاری کیوں نہیں محسوس ہوتا۔ کوئی جواب نہیں بن پاتا ان سے۔

تاری کے ساتھ ایک ہی مسئلہ ہے۔ وہ پاکستان میں پیدا ہوا۔ وہ پاکستان جسے بڑے غلام علی چھوڑ کر بھارت چلے گئے اور وہاں سر آنکھوں پہ بٹھائے گئے۔ اللہ رکھہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیم سے پہلے ہی بھارت چلے گئے۔ اچھا کیا ورنہ فاقوں مرتے ادھر اور کوئی ذاکر بھی نہ پیدا ہوتا۔

تاری اور ان کے استاد نے پاکستان میں طبلہ بجایا۔ یہاں سے دنیا میں نام بنایا۔ ایسی جگہ جہاں فنکار کو میراثی اور کنجر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جہاں کی افسر شاہی فنکاروں کو شودر سمجھتی ہے۔ تاری جوانی میں ہی امریکہ چلے گئے تھے۔ چاہتے تو امریکی شہریت لے سکتے تھے۔ مگر حب الوطنی جس سے پیٹ ہرگز نہیں بھرتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا نہ کر سکے۔ ساری دنیا میں طبلے کے ذریعے پاکستان کی سفارت کاری کرتے رہے اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ اور حکومت نے کیا دیا۔ ایک جھنجھنہ جس کا نام ہے پرائیڈ آف پرفارمنس جو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو ملا ہوا ہے۔ شوکت صاحب اور تاری پرائیڈ آف پرفارمنس۔ یہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر شبیر حسین جھاری، محمد اجمل یا بشیر خان۔ ان کو بھی پرائیڈ آف پرفارمنس! تو پھر کیا فرق رہا گدھے اور گھوڑے میں!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔