نواز شریف مقبولیت میں عمران خان کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں: امریکی اخبار بلوم برگ

نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن کو تیزی سے ووٹرز کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں نواز شریف کو سب سے زیادہ 60 فیصد مقبولیت حاصل ہے جبکہ ان کے مقابلے میں عمران خان کی مقبولیت کی شرح 53 فیصد ہے۔

نواز شریف مقبولیت میں عمران خان کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں: امریکی اخبار بلوم برگ

پاکستان کے عام انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ اگرچہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان اس وقت بھی پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان ہیں، مگر ان کے حریف نواز شریف کی عوامی حمایت میں اس وقت سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے جب سے وہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آئے ہیں۔

گذشتہ ماہ کیے گئے گیلپ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت 57 فیصد ہے، جو گذشتہ سال جون میں ان کی مقبولیت 60 فیصد سے قدرے کم ہو گئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سابق کھلاڑی جنہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے، ان کے لیے اب بھی وسیع پیمانے پر حمایت موجود ہے۔ 71 سالہ عمران خان کو درجنوں مقدمات کا سامنا ہے اور کوئی امکان نہیں کہ انہیں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کوئی ریلیف مل پائے گا۔

اس کے برعکس 74 سالہ نواز شریف اکتوبر میں جب 4 سالہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس لوٹے تو ان کی مقبولیت 36 فیصد سے بڑھ کر 52 فیصد ہو گئی۔ طبی مسائل کی بنیاد پر اختیار کی گئی جلاوطنی نے انہیں جیل میں رہنے سے بچا لیا تھا۔

دونوں رہنماؤں کی تقدیروں میں ایسے وقت میں ادلا بدلی ہو رہی ہے جب پاکستان کے 12 کروڑ 70 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے باعث عام انتخابات 4 ماہ کی تاخیر سے منعقد ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی 76 سالہ مجموعی سیاسی تاریخ میں قومی اسمبلی اپنی مدت محض تین ہی مرتبہ پوری کر سکی ہے اور بعض مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کو انتخابات کی دوڑ سے باہر رکھا گیا تو انتخابی عمل پر عوام کی بڑھتی بداعتمادی میں مزید اضافہ ہو گا۔

عام انتخابات میں التوا نے نواز شریف کو اپنی بدعنوانی کی سزائیں ختم کروانے کے لیے عدالتوں میں نظرثانی کی درخواستیں جمع کروانے کی مہلت دے دی۔ پچھلے ہفتے پاکستان کی سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی سزا ختم کرتے ہوئے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔

نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن کو تیزی سے ووٹرز کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں نواز شریف کو سب سے زیادہ 60 فیصد مقبولیت حاصل ہے جبکہ ان کے مقابلے میں عمران خان کی مقبولیت کی شرح 53 فیصد ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق پنجاب میں نواز شریف کی پارٹی کی عوامی حمایت 32 فیصد تک بڑھ گئی ہے جو عمران خان ​​کی پاکستان تحریک انصاف سے محض 2 فیصد کم ہے۔

عام انتخابات کے انعقاد سے توقع لگائی جا رہی ہے کہ ان کے بعد پاکستان میں موجود سیاسی غیر یقینی کی فضا کا خاتمہ ہو جائے گا جس نے اس وقت سے پاکستان کو جکڑ رکھا ہے جب اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو ختم کیا گیا تھا۔ حکومت سے بے دخلی کے بعد عمران خان فوجی جرنیلوں کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئے تھے حالانکہ ان فوجی جرنیلوں کو پاکستان کی خارجہ پالیسی اور معیشت پر بہت گہرا اثر و رسوخ حاصل ہے۔ عمران خان فوج پر الزام لگاتے آئے ہیں کہ اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سازش تیار کر کے ان کی حکومت ختم کروائی تھی مگر فوج مسلسل اس الزام کی تردید کرتی آئی ہے۔

اپنی برطرفی کے بعد سے عمران خان توہین عدالت سے لے کر دہشت گردی تک کے کئی الزامات میں متعدد مقدمات میں پھنس گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان سمیت پاکستان تحریک انصاف کے متعدد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے ہیں۔ عمران خان سے متعلق الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں سزا اور 5 سالہ نااہلی کے بعد انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کے خلاف بھی کریک ڈاؤن ہوا اور یہ اس وقت وقت شروع ہوا جب مئی میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد بڑی تعداد میں ان کے حامی سڑکوں پر نکلے، احتجاج کیا اور انہوں نے ریاستی اور فوجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔ عمران خان کی جماعت میں شامل سرکردہ رہنماؤں میں سے بیش تر نے پارٹی رکنیت سے استعفے دے دیے اور بعض نے اپنی سیاسی جماعتیں بنا لی ہیں۔


یہ تجزیہ امریکی اخبار Bloomberg News میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔