جج ویڈیو کیس کی سماعت، آج کمرہِ عدالت میں کیا ہوا؟

تحریر: (اسد علی طور) احتساب عدالت نمبر دو کے سابق جج ارشد ملک کے وڈیو اسکینڈل پر دائر تین درخواستوں کی سماعت آج سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عُمر عطا بندیال پر مُشتمل تین رُکنی بینچ نے کی۔ درمیان میں بیٹھے چیف جسٹس کے دائیں طرف سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس شیخ عظمت سعید شیخ بیٹھے تھے جبکہ بائیں طرف مُستقبل کے چیف جسٹس عُمر عطا بندیال بیٹھے تھے۔

پیٹشنر اشتیاق مرزا کے وکیل نے مریم نواز کی پریس کانفرنس پر مُختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے بیانات پڑھتے ہوئے دلیل دی کہ یہ سب اعلیٰ عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں اور عدلیہ کو اپنی خودمختاری پر سوال نہیں لگنے دینا چاہیے۔ اشتیاق مرزا نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ ایک کمیشن بنا دے جو سچ تلاش کر کے سامنے لائے۔ معزز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اُٹھایا کہ اگر عدلیہ کسی کے کہنے پر نوٹس لے گی تو خودمختاری کہاں گئی؟ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے نوٹس لینے سے ہائیکورٹ کا دائرہ کار مُتاثر ہوگا اور معاملہ اپیل میں ہمارے سامنے ہی آنا ہے تو اپیل کنندہ کا حقِ اپیل بھی کمپرومائز ہو گا۔

دوسرے پیٹشنر سہیل اختر کے وکیل اکرام چوہدری نے وڈیو اسکینڈل کو عوامی مُفاد کا معاملہ بتا کر دلیل دی کہ یہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کی حدود میں آتا ہے اور سپریم کورٹ اِس کا از خود نوٹس لیتے ہوئے توہینِ عدالت کی کاروائی کرے اور سپریم کورٹ کے جج پر مُشتمل کمیشن بنا کر تحقیقات بھی کرے کیونکہ یہ عدلیہ کی ساکھ پر حملہ ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اُٹھایا کہ جب ایک وکیل نے جج پر اور ایک جج نے سول جج پر حملہ کیا تو آپ کو عدلیہ کی ساکھ کی پریشانی نہیں ہوئی؟ لیکن کیونکہ یہاں ایک مُجرم ایک ہائی پروفائل شخص ہے تو آپ چاہتے ہیں نوٹس لیا جائے۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ جج کا جاکر ملاقاتیں کرنا ایک غیر معمولی واقعہ ہے جِس کو ضرور دیکھا جانا چاہیے۔ اِس موقع پر معزز جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں عدالت کی عزت اور ساکھ کی حفاظت کرنی ہے لیکن جذبات کے زیرِ اثر فیصلہ نہیں کرنا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ الزام لگانے والوں کے خلاف کاروائی کی استدعا کررہے ہیں لیکن جِس جج نے ملاقاتیں کیں اُس کے خلاف کاروائی کیوں نہ ہو؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اِس موقع پر کیسے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جج پر الزامات غلط ہیں۔ توہینِ عدالت تب ہوگی جب جج پر الزامات غلط ثابت ہوں گے۔ ایڈوکیٹ اکرم چوہدری کی طرف سے کاروائی کی درخواست دہرانے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پورے پاکستان میں جو پرچے کاٹے جاتے ہیں کیا وہ سپریم کورٹ کے حُکم پر درج ہوتے ہیں؟ برائے مہربانی قانون کا اپنا راستہ بنانے دیں۔

عدالتی وقفہ کے بعد جب کورٹ روم نمبر ون میں دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو آخری پیٹشنر طارق اسد ایڈوکیٹ نے تشویش ظاہر کی کہ جج مدینہ سے لے کر جاتی عُمرہ تک ملاقاتیں کرتا رہا لیکن حکومت اور ادارے سوئے ہوئے تھے کسی کو خبر نہ ہوئی۔

طارق اسد ایڈوکیٹ نے اِس موقع پر چیف جسٹس سے درخواست کی کہ وہ اداروں کو ہدایات دیں کہ وہ عدالتی معاملات میں مداخلت بند کریں۔ چیف جسٹس نے مُسکراتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں ادارے عدالتی معاملات میں مُداخلت مت کریں اور دوسری طرف شکایت لگارہے ہیں کہ اداروں نے جج کی مانیٹرنگ کیوں نہیں کی؟ پیٹشنر نے عدالت سے درخواست کی کہ سپریم کورٹ کے جج پر مُشتمل بینچ اِس معاملہ کی تحقیقات کرے۔ اِس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اہم ریمارکس دئیے جو ہمیں سمجھنے کا موقع دیتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ اِس وڈیو اسکینڈل کو کِس نظر سے دیکھ رہی ہے اور کیا ایکشن متوقع ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون میں طریقہ کار طے ہے کہ ایسی وڈیوز کی پہلے ساکھ دیکھی جائے گی پھر دیکھا جائے گا یہ اصلی ہے اور پھر دیکھا جائے گا کہ اِس کو بطورِ ثبوت استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اور آخر میں اِس کا کیس سے تعلق دیکھا جائے گا جِس کے بعد فیصلہ ہو گا کہ اِس پر الیکٹرانک ایکٹ لاگو ہوتا ہے یا پرائیویسی کا قانون کے ایک جج کی وڈیو اُس کے علم میں لائے بغیر کیسے بنائی گئی۔ اور پھر جج کا کنڈکٹ بھی دیکھا جائے گا۔ جب یہ سب کڑیاں جوڑ لی جائیں گی تو دیکھا جائے گا کہ اِس تمام عمل کا پہلے سے دئیے گئے فیصلہ پر کیا اثر ہو گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اِس موقع پر سب سے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر ٹرائل کے دوران شہادتیں دیتے وقت اور بحث کے دوران کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر فیصلہ دوبارہ لکھوانے کا حُکم دے دیا جائے یا کیس کو ری ٹرائل کے لیے بھیج دیا جائے۔

طارق اسد ایڈوکیٹ نے چیف جسٹس کو جسٹس ملک قیوم کی آڈیو ٹیپ کی مثال دی تو اُن کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کے خلاف فیصلہ آڈیو ٹیپس کی بنیاد پر کالعدم نہیں ہوا تھا بلکہ جج کی جانبداری سامنے آنے پر کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

اِس موقع پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو تیئس جولائی تک کا نوٹس کرتے ہوئے حُکم دیا کہ وہ عدالت کی معاونت کریں کہ اِس کیس میں کیسے آگے بڑھا جاسکتا ہے تاکہ ججز فیصلے کے لیے اپنا حتمی ذہن بنا سکیں۔ دلچسپی کی بات ہے اگست میں ریٹائر ہونے والے جسٹس عظمت سعید شیخ تمام سماعت کے دوران خاموش رہے اور زیادہ وقت آنکھیں بند کرکے وکلا کے دلائل سُنتے رہے۔ اسی طرح جسٹس عُمر عطا بندیال نے صرف ایک موقع پر ریمارکس دئیے باقی سارا وقت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ وکلا کی بحث کے دوران سوالات کرتے رہے۔