پاکستان کی عوام اور حکومت خود ابھی تک اس بات کو سمجھنے میں ناکام ہے کہ عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب کیوں ہے۔ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے بہت کم لوگ جانتے تھے عثمان بزدار کون ہیں۔ بہت لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کو وزیر اعلیٰ صرف ایک پسماندہ علاقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے بنایا گیا۔
ملکی سیاست میں گذشتہ ڈیڑھ، دو ماہ سے مائنس ون کی خبریں گرم ہیں۔ ان غیر مصدقہ اطلاعات کو خود وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنے مائنس ہونے کا ذکر کر کے تقویت دی۔
تاحال خود وزیر اعظم کے مائنس ہونے کی اطلاعات اور باتوں کو زمینی حقائق کسی طور پر سپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔
اپوزیشن تتر بتر ہے، آپس میں عدم اعتماد کا شکار ہے، ایسے میں ان کی جانب سے وزیر اعظم کو مائنس کرنے کی کوئی بھی کوشش کارگر ثابت ہوتی نہیں دکھتی لیکن وزیر اعظم عمران خان کے لئے سب سے بھاری بوجھ خیبر پختونخوا اور پنجاب حکومت کی غیر تسلی بخش کارکردگی ہے جس نے گذشتہ دو برس میں ان کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔
الیکشن جیتنے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے عثمان بزدار کا انتخاب نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے ایک بڑا سرپرائز تھا کیونکہ کنگ میکر سمجھے جانے والے پنجاب کے لئے عمران خان نے ایک نیا چہرہ جو کہ پی ٹی آئی فیس بھی نہیں ہے، اس کا انتخاب کیوں کیا۔
عمران خان چند ماہ قبل تک ہر فورم پر سردار عثمان بزدار کا دفاع کرتے رہے ہیں بلکہ وہ ان کو وسیم اکرم پلس کے القابات سے بھی نوازتے دکھائی دیتے رہے ہیں۔ تحفظات، اعتراضات اور خدشات کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے ہمیشہ عثمان بزدار کا دفاع کیا ہے جو آج تک عمران خان کے اپنے وزرا کو کبھی سمجھ نہیں آیا۔ عمران خان نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جب تک پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت ہے تب تک سردار عثمان بزدار ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔
وزیر اعظم کی ضد اپنی جگہ لیکن آج بھی عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کے مطالبے تواتر سے کیے جا رہے ہیں۔
یہ کہنا بلکل غلط نہ ہوگا کہ اب عمران خان عثمان بزدار کا متبادل ڈھونڈنے میں گھبرا رہے ہیں کیونکہ بزدار کو تبدیل کرنے کے وقت پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں اس قدر مظبوط نہیں رہی جتنی بزدارکو منتخب کرتے ہوئے تھی۔
خان صاحب کا دل یہ سوچ کر بھی بیٹھ جاتا ہوگا کہ اگر اپنے ناراض اراکین کومنانے کے لئے بزدار کو تبدیل کرنا پڑا تو اپنی ہی سیاسی پارٹی سے نیا امیدوار منتخب کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے اندد ہی اس عہدے کے لئے کافی امیدوار ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ق) چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لئے ہر سیاسی طریقہ اپنائے گی، اور پاکستان تحریک انصاف کو شکست دینے کے لئے مسلم لیگ ن بھی ق لیگ کا ساتھ دے کر اپنے ہی پاؤں میں کھلاڑی مارے گی۔
حکومتی کیمپ کی ایک توانا آواز وفاقی وزیر فواد چودھری تو اس حوالے سے مسلسل شکایت کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کی تبدیلی چاہتے ہیں اور ان کی ناقص کارکردگی پر بار بار تنقید کرتے آ رہے ہیں۔
حکومت کے ایک سال پورے ہونے پر ہی انہوں نے کھل کر اظہار کیا تھا کہ پارٹی کے اکثر اراکین عثمان بزدار کو جانتے ہی نہیں اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ڈکٹیٹر بنے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک بار پھر عثمان بزدار سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے جب کہ عمران خان کو ایک خط لکھ کر بھی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی شکایت کی کہ ان کی بری کارکردگی کی وجہ سے تحر یک انصاف بدنام ہو رہی ہے۔
عثمان بزدار کے لئے ایک بڑا چیلنج اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی کارکردگی سے بھرپور ایک 14 سالہ legacy بھی ہے جس کو برقرار رکھنا ناتجربہ کار عثمان بزدار کے لئے مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
ایک سیٹ اپ کو سمجھنے کے لئے اور اپنی جگہ بنانے کے لئے دو سال ایک مناسب عرصہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی مسلسل سوالیہ نشان ہی بنی ہوئی ہے۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی ٹیم اور بالخصوص وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اپنے وزیر اعلیٰ اور ان کی کارکردگی کا بھرپور دفاع کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔
اگر آپ پاکستانی میڈیا کے مستقل ناظر ہیں تو آپ کو بھی احساس ہوا ہوگا کہ جو آوازیں عمران خان کی حمایت میں اٹھتی تھیں وہ عثمان بزدار پر آ کر ایک تنقید کا طوفان کھڑا کر دیتی ہیں کیونکہ عثمان بزدار خود ابھی تک میڈیا کے میدان تک کو سنبھالنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ انہوں نے خود کو میڈیا کے لئے ناپید کر چھوڑا ہے جس کی تازہ ترین مثال سینیئر صحافی کامران خان کے ساتھ طے شدہ انٹرویو سے اچانک راہ فرار اختیار کرنا ہے۔
عمران خان اور ان کے ترجمانوں کی کارکردگی کو خاصا سراہنے والے کامران خان بھی عثمان بزدار کو وزیر اعظم کے لئے ڈیزاسٹر یا تباہی قرار دے رہے ہیں۔
پنجاب میں تبدیلی کی باتیں تو تقریبا پونے دو سال سے ہو رہی تھیں لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے یہ تبدیلی لانا آسان نہیں رہا ہے۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق اب اس تبدیلی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے حالیہ کالم کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ متبادل کے طور پر علیم خان، محسن لغاری، ہاشم جواں بخت اور میاں اسلم اقبال نمایاں امیدوار ہیں مگر زیادہ چانسز علیم خان او/ر محسن لغاری کے ہیں۔
گورننس اور ناقص کارکردگی کے باعث پنجاب میں تبدیلی وقت کی ضرورت تو شاید ہے لیکن کیا ان قیاس آرائیوں اور تجزیوں میں کوئی صداقت بھی ہے؟
یا ایک بار پھر عثمان بزدار کی تبدیلی کی باتیں ماضی کی طرح ہوا ہو جائیں گی اور عمران خان کھلم کھلا بزدار کا دفاع کر کے سب کو واضح پیغام دے کر چپ کرا دیں گے؟
مصنفہ سما نیوز پر پروڈیوسر ہیں، اور اس سے قبل مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔