Get Alerts

کوہستان بس حادثہ: کیا یہ جوہر ٹاون لاہور بم دھماکے کی کڑی ہے؟

کوہستان بس حادثہ: کیا یہ جوہر ٹاون لاہور بم دھماکے کی کڑی ہے؟
خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقہ کوہستان جہاں ماضی میں عسکریت پسند تنظیمیں نہ تو کوئی خاطر خواں کارروائی کرسکیں اور نہ ہی دہشتگردی کے واقعات رونماء ہوئے آج کل ایک بس حادثے جس میں نو چینی شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے کی وجہ۔ سے خبروں میں ہے۔

تفصیلات کے مطابق اپر کوہستان میں بدھ کی صبح شاہراہ قراقرم پر داسو ہائیڈرو ڈیم کی سائٹ کے قریب چینی مسافروں کی بس کو ایک حادثہ پیش آیا تھا۔
داسو کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق اس حادثے میں نو چینی انجینئرز، دو ایف سی اہلکار اور دو عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 27 افراد زخمی ہیں جن میں زیادہ تر تعداد چینی شہریوں کی ہے۔ شدید زخمی افراد کو طبی امداد کے لیے بذریعہ ہیلی کاپٹر گلگت منتقل کر دیا گیا تھا۔

وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے اس حادثے پر ردعمل دیتے ہوئےکہا کہ داسو واقعے کی ابتدائی تفتیش کے دوران بارودی مواد کے شواہد ملنے کی تصدیق ہوئی ہے اس لئے اس واقعے میں دہشت گردی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

فوادچودھری کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ذاتی طور پر اس حوالے سے ہونے والی ہر پیشرفت کی نگرانی کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستانی حکومت چینی سفارتخانے کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔

دوسری جانب وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود نے ابتدائی تحقیقات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ بس میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے گیس لیک ہوئی جس سے ایک دھماکہ ہوا اور بس گھائی میں جاکر گری اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ بس حادثہ تھا، دہشتگردی کا واقعہ نہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے متضاد بیانات پر سوشل میڈیا پر اُن پر تنقید کی جارہی ہے اور ان کے متضاد بیانات کا مزاق اُڑایا جارہا ہے۔دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہا گذشتہ روز چینی انجینیئرز کی بس کو پیش آنے والا حادثہ دہشتگردوں کا حملہ تھا تو اس میں ملوث مجرموں کو فوراً گرفتار کر کے سخت سزا دی جانی چاہیے اور اس واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے چین، پاکستان تعاون کے منصوبوں پر سکیورٹی کو مزید بڑھانا چاہیے تاکہ ان منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ماضی میں کوہستان کے علاقے میں دہشتگرد تنظیموں کا کوئی خاص وجود اور نیٹ ورک موجود نہیں تھا اوراس میں بین الاقوامی ہاتھ ملوث ہوسکتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان میں سیکیورٹی معاملات پر نظر رکھنے والے نیویارک ٹائمز کے صحافی احسان ٹیپو محسود نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ شروع میں جب ہم نے اس واقعے کی تحقیقات شروع کی اور ضلعی انتظامیہ سے بات کی تو انھوں نے شروع میں یہی موقف اپنایا کہ یہ ایک قدرتی حادثہ تھا مگر جب چین کی وزارت خارجہ نے اس پر سخت ردعمل دیا اور سخت الفاظ میں پاکستان سے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائے تب جاکر تحقیقات کا آغاز ہوا اور اب بھی حکومت کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں۔

وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ہمیں کافی شواہد ملے ہیں کہ اس بس کو سڑک کے کنارے لگائے گئے خودساختہ بم سے نشانہ بنایا گیا ہے اور مقامی لوگوں نے بھی دھماکے کی ایک آواز سنی تھی جس کے بعد ہم نے تحقیقات کا آغاز کیا اور اب اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ دہشتگردی کا واقعہ تھا اور اس بس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ وزارت داخلہ کے مطابق حساس اداروں سمیت دیگر مخکمے اس حملے کی تحقیقات کررہی ہے اور جلد میڈیا پر اس حملے کے حوالے سے تفصیلات سامنے لائے جائے گی۔

صحافی احسان ٹیپو محسود اس تاثر سے اتفاق کرتے ہیں کہ ماضی میں اس علاقے میں دہشتگردوں کا کوئی نیٹ ورک موجود نہیں تھا اور جب بھی دہشتگردی کا کوئی واقع سامنے اتا ہے تو عسکریت پسند تنظیمیں اس کی زمہ داری قبول کرتی ہیں۔ لیکن اس کیس میں ایسا نہیں اور ابھی تک کسی عسکریت پسند تنظیم نے اسکی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ احسان ٹیپو محسود کے مطابق چین نے اس سے پہلے ان علاقوں میں کام کرنے والے اپنے شہریوں کو خطرے کی الرٹ جاری کی تھی کہ وہ اپنے نقل و حرکت کو محدود کریں اور پہلے سے زیادہ اختیاط کریں۔

محسود کے مطابق حساس اداروں اور زمہ داران کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ کسی عسکریت پسند جماعت نے نہیں کیا اور اس میں بین الاقوامی ہاتھ ملوث ہے۔ ان کے مطابق یہ جماعت الدعویٰ کے سربراہ حافظ سعید پر لاہور میں ہونے والے حملے کی ایک کڑی ہے اور اس میں پڑوسی ملک ہندوستان ملوث ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔