رواں برس کے زیادہ تر حصے میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا امتحان صرف ایک تھا، کہ کس طرح پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا جائے۔ ملک اب بھی خطرے سے باہر نہیں ہے لیکن رواں ہفتے وہ عالمی مالیاتی ادارے کو بیل آئوٹ پر رضامند کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے اصل امتحان کا آغاز اب ہوا ہے اور حکمراں جماعت کو ایک بڑا امتحان درپیش ہے۔ آئی ایم ایف نے اعلان کیا ہے کہ اگلے برس تک پاکستان کو 4 بلین ڈالر مہیا کیے جائیں گے اور یہ کہ اسلام آباد کڑے معاشی چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔
اس حوالے سے ایک انٹرویو کے دوران مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کیساتھ طے کیا جانے والا پروگرام ملک کو مالیاتی استحکام کے راستے پر آنے میں مدد دے گا۔ حکومت معاہدے کی شرائط کی پاسداری کرے گی تاکہ معاشی امتحان میں پورا اترا جا سکے۔ وزیر خزانہ نے مزید تبصرہ کیا کہ کوئی بھی مہنگائی نہیں چاہتا لیکن حمکراں جماعت آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ کو ممکن بنانے کے لئے اپنی سیاسی ساکھ بھی داؤ پر لگانے پر تیار رہی۔
ٹاپ لائن سیکورٹیز کے سربراہ محمد سہیل کے مطابق جولائی میں شروع ہونے والے مالیاتی سال میں ایکسٹرنل فنانسنگ کا کل حجم 30 سے 35 بلین ڈالر رہے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں عالمی کمرشل بینکوں اور بانڈ مارکیٹوں کا رخ کرنا پڑے گا
محمد سہیل کے مطابق یہ بہت بڑا فاصلہ ہے جسے عبور کرنا نہایت کٹھن ہوگا۔ مالیاتی مدد کے لیے چین ایک بڑا ذریعہ ہوگا۔ بیجنگ نے پہلے ہی پاکستان کو کئی بلین ڈالرز کی امداد دی ہے، جس میں فارن کرنسی ریزروز کے لیے جون میں دی جانے والی 2 بلین ڈالرز سے زائد کی رقم بھی شامل ہے۔
حالات یہاں تک کیسے پہنچے؟ اس حوالے سے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان حالیہ ہفتوں میں ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ یوکرائن جنگ کے آغاز میں سپلائی شاکس نے فیول اور کھانے پینے کی چیزوں کی درآمدات کو آسمان پر پہنچا دیا جس سے پاکستان اور دیگر ممالک کے مالیاتی معاملات بے حد متاثر ہوگئے۔
عالمی مالیاتی ادارے نے اس وقت پاکستان کے ساتھ پروگرام معطل کر دیا جب سابق حکومت نے فروری میں معاہدے کے خلاف جاتے ہوئے فیول سبسڈی اور ٹیکس ایمنسٹی جسے اقدامات اٹھائے۔
مفتاح اسماعیل یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ پہلا قدم ہے، لیکن اس سے عالمی بینک اور دیگر اداروں سے باہمی اور کمرشل فنڈز کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔
لیکن ناقدین فنڈز کے حصول کو بالکل بھی حوصلہ افزا نہیں سمجھتے۔ ٖفائڈیلٹی انٹرنیشنل میں گلوبل ہیڈ آف میکرو سلمان احمد کے مطابق موجودہ صورتحال 'کریش ڈائٹ' پر جانے اور پھر بری عادتوں کے آگے سپر ڈال دینے کے مترادف ہے۔ احمد کے نزدیک یہ طرز عمل بالکل بھی صحت مند نہیں ہے۔
"طویل المدتی اسٹرکچرل اصلاحات کا کیا ہوا؟ ضرورت تو ان پالیسیوں کی تشکیل کی ہے جو مضبوط معاشی نظام ممکن بنائیں، نا کہ وقتی حالات سے نمٹنے کے لیے فائر فائٹنگ۔" دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ووٹرز موجودہ حکومت پر اس حوالے سے اعتماد کر پاتے ہیں یا نہیں۔