بلوچستان بھر میں اس وقت گوادر میں حالیہ عوامی تحریک ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ اس کی وجہ اس تحریک پر جماعت اسلامی کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ ہے۔ گوادر میں بلدیاتی الیکشن میں کامیابی کے بعد سے جماعت اسلامی کے آفیشئل پیجز پر کامیابی کی کریڈٹ لیا جا رہا ہے۔
مقامی جماعت اسلامی کے رہنما بھی حق دو تحریک کے سٹیجوں پر زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کا تعلق بھی جماعت اسلامی سے ہے لیکن انھوں نے جماعت اسلامی کے خلاف بلوچ معاشرے میں عوامی غم وغصہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تحریک کو شروع میں جماعت اسلامی سے الگ رکھا تھا۔
لیکن حالیہ کچھ بیانات اور انٹرویوز میں مولانا نے جماعت اسلامی کی نمائندگی کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کی شدت پسندانہ کارروائیوں کی حمایت کی ہے۔ مولانا نے چند دن پہلے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں ان کی طلبہ تنظیم ناچ گانے، شراب اور منشیات کے خلاف ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں جمیعت نہیں ہے، اسی لیے وہاں یورپین کلچر ہے۔
مولانا کے ان بیانات اور حق دو تحریک پر جماعت اسلامی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خلاف بدھ 15 جون کو حق دو تحریک کی کراچی میں بلوچ خواتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج میں نوجوانوں نے جماعت اسلامی کی حق دو تحریک پر قبضے کے خلاف بھی احتجاج کیا۔
نوجوانوں نے پوسٹر اٹھائے ہوئے تھے جن پر درج تھا کہ "حق دو تحریک ماسی زینب کی تحریک ہے، قوم پرست حسین واڈیلہ اور مولانا ہدایت الرحمٰن کی تحریک ہے، جماعت اسلامی کی نہیں" اس کے ساتھ ساتھ پوسٹرز پر یہ بھی لکھا تھا کہ "بلوچ خواتین پر پولیس گردی اور بلوچ طلبہ پر جمیعت گردی نامنظور" ہے۔
بلوچستان کے صحافتی، ادبی اور عام عوامی سرکلز میں ایک بار پھر حق دو تحریک اسی لئے زیر بحث ہے کیونکہ جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کے خلاف پنجاب میں زیر تعلیم بلوچ طلبہ اکثر شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ان کی شدت پسندانہ کارروائیوں کی وجہ سے بلوچ طلبہ تنگ ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے گوادر دھرنے پر جب یہ سوال پوچھا گیا کہ جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کی پرتشدد کارروائیوں کی آپ مذمت کیوں نہیں کرتے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ" یہ سب جھوٹ ہے اور پنجاب کی یونیورسٹیوں میں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ یہ قوم پرستوں کی سازش ہے"۔
مولانا سراج الحق کی آمد کے بعد گوادر دھرنا کافی کمزور ہو گیا تھا جہاں ایک وقت میں تین ہزار لوگ بیٹھتے تھے، وہاں دوسرے دن 100 لوگ بھی نہیں آئے تھے۔ اب ایک بار پھر جماعت اسلامی کی بڑھتے ہوئے اثرات سے عام لوگ کنارہ کشی کرتے نظر آ رہے ہیں۔
اسی سلسلے میں گذشتہ روز گوادر کے نوجوانوں نے حق دو تحریک کے ہی جلسے میں انوکھا احتجاج کیا جس میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اور تحریک کو جماعتی رنگ دینے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حق دو تحریک کے نئے منتخب کونسلرز بھی اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ عوامی تحریک کے ساتھ ہیں، جماعت اسلامی کے نہیں۔ واٹس ایپ گروپس میں بھی جماعت اسلامی کی وجہ سے اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔
گوادر سمیت مکران میں اب یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ ماہی گیر اور مزدوروں کی اس تحریک پر جماعت اسلامی کا قبضہ بڑھ رہا ہے اور تحریک کو جماعت اسلامی ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے قوم پرست رہنما بھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں جن کی وجہ سے اس تحریک کو مقبولیت ملی تھی۔
یوسف مستی خان بلوچ سمیت مکران سول سوسائٹی کے گلزار دوست نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح اس تحریک کو سپورٹ کرنے والے بلوچ خواتین کے لئے کام کرنے والی تنظیم راجی بلوچ ویمن فورم سمیت بڑی تعداد میں یونیورسٹیوں کے طالب علم بھی جماعت اسلامی کی بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔