پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا فیصلہ آرمی چیف کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آرمی چیف جو کہتے ہیں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ ملک کے تمام فیصلے اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے میری مراد ایک آدمی ہے اور وہ ایک آدمی آرمی چیف ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا کہ سب جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہے اور ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اس ملک کو چلانے کا کوئی جواز یا اخلاقی اختیار نہیں۔ 60 فیصد حکمران کرپشن کے مقدمات میں ضمانت پر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بدعنوانی کے الزامات کے باوجود حکمران اتحاد صرف اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے اقتدار میں ہے۔
16 فروری کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے صدر عارف علوی کو ایک خط لکھا جس میں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے خلاف حلف کی مبینہ خلاف ورزیوں پر فوری انکوائری شروع کرنے پر زور دیا ۔
خط میں عمران خان نے 4 طریقوں کا ذکر کیا جن میں سابق آرمی چیف نے مبینہ طور پر آئین کی خلاف ورزی کی۔ "کچھ بہت تشویشناک معلومات اب منظر عام پر آئی ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ جنرل باجوہ نے بطور آرمی چیف اپنے عہدے کے حلف کی بار بار خلاف ورزی کی۔ ان خلاف ورزیوں کے پیش نظر میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے جنرل باجوہ کے خلاف فوری انکوائری کا آغاز کروائیں۔
عمران خان نے مزید کہا کہ انہوں نے صحافی جاوید چوہدری کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ "ہم" عمران خان کو ملک کے لیے خطرناک سمجھتے تھے اگر وہ اقتدار میں رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں یہ فیصلہ کرنے کا اختیار کس نے دیا کہ ایک منتخب وزیر اعظم اگر اقتدار میں رہے تو ملک کے لیے خطرہ ہے۔ انتخابات کے ذریعے عوام ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کسے وزیر اعظم منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے اوپر ایسا حق لینا ان کے حلف کی صریح خلاف ورزی ہے جیسا کہ آئین کےتیسرے شیڈول آرٹیکل 244 میں دیا گیا ہے۔
مزید کہا گیا کہ اس کیس میں انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ شوکت ترین کے خلاف نیب کیس کو خارج کرنے میں کامیاب رہے اور انہوں نے ظاہر کیا کہ نیب ان کے کنٹرول میں تھا۔ یہ بھی آئینی حلف کی صریح خلاف ورزی ہے کیونکہ فوج خود ایک محکمہ ہے جو وزارت دفاع کے ماتحت ہے۔ اور سویلین سرکاری خود مختار ادارے فوجی کنٹرول میں نہیں آتے۔