اگرچہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں دعویٰ کر رہی ہیں کہ حالیہ انتخابات میں منظم دھاندلی کے ذریعے ان کی جیتی ہوئی نشستوں کو ہار میں تبدیل کیا گیا ہے تاہم بلوچستان کے بلوچ حلقوں میں پارلیمانی قوم پرست جماعتوں کی مقبولیت پہلے سے کافی کم محسوس کی جا رہی ہے۔
ماضی میں بلوچستان کے بلوچ حلقوں، بالخصوص مکران میں قوم پرست پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی پکڑ بھاری رہی ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے ادوار سے لے کر دیگر بلوچ قوم پرست پارٹیاں جو اپنے آپ کو نیپ کی پیدوار سمجھتی ہے، مکران کی پارلیمانی سیاست میں زیادہ تر نشستیں انہی کے پاس رہی ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں جب غیر پارلیمانی قوتوں کو عوامی پذیرائی زیادہ ملتی گئی تو یہ قوم پرست پارلیمانی جماعتیں عوام کے اندر اپنی مقبولیت کھو بیٹھیں۔
حالیہ عام انتخابات میں مکران کی 7 نشستوں پر قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کو صوبائی اسمبلی کی 2 نشستیں ملیں۔ نیشنل پارٹی نے حالیہ الیکشن کے نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دیگر قوم پرستوں کے ساتھ مل کر بلوچستان بھر میں ایک تحریک چلائی۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ قوم پرستوں کے اس احتجاج کو عوامی سطح پر اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنی غیر پارلیمانی سیاست کرنے والوں کو ملتی ہے۔
بلوچستان میں الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے قوم پرست ہر وقت کہتے رہتے ہیں کہ ان کی جیتی ہوئی نشستوں کو ہار میں تبدیل کیا جاتا ہے، بلوچ حلقوں میں اس وقت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور نیشنل پارٹی دو ایسی جماعتیں ہیں جو پارلیمانی سیاست میں بلوچ حلقوں میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ نیشنل پارٹی مکران، جھالاوان، آواران ، بارکھان سمیت کوئٹہ کے سریاب کے حلقوں میں مضبوط پوزیشن کا دعویٰ کرتی ہے۔ اسی طرح بی این پی جھالاوان سے لے کر گوادر اور مستونگ سے لے کر کوئٹہ میں مضبوط پوزیشن کی دعوے دار ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
حالیہ الیکشن میں بی این پی کے قائد سردار اختر مینگل اپنے آبائی حلقے کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب رہے جبکہ نیشنل پارٹی کے سربراہ اپنے آبائی حلقے کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے۔ نیشنل پارٹی کو آواران اور پنجگور سے ایک، ایک صوبائی اسمبلی کی نشست ملی جبکہ پنجگور کم کیچ کی قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب رہی۔ نیشنل پارٹی نے حالیہ انتخابات کے نتائج کو مبینہ دھاندلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان بھر میں نیشنل پارٹی صوبائی اسمبلی کی 10 کے قریب نشستیں جیت رہی تھی مگر الیکشن کے بعد ٹیمپرنگ کر کے نیشنل پارٹی کی بھاری اکثریت کو ہار میں تبدیل کیا گیا۔
انتخابی دھاندلی کے نوجوانوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
بلوچستان کے بلوچ حلقوں میں نوجوانوں کی اکثریت پارلیمانی سیاست میں حصہ نہیں لیتی۔ نوجوان پارلیمانی سیاست سے بے زار دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ سے غیر پارلیمانی سیاست کرنے والوں کو بلوچ حلقوں میں کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ حالیہ دھاندلی کے بعد ان بلوچ نوجوانوں کا اعتبار بھی پارلیمانی سیاست سے اٹھ رہا ہے جو پارلیمنٹ کو مقدس سمجھتے تھے اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے بلوچستان کے حقوق حاصل کرنے کے دعویدار تھے۔
عوامی مینڈیٹ 20 فیصد سے بھی کم
بلوچستان کے اکثر بلوچ حلقوں میں الیکشن جیتنے والے امیدوار 10 سے 20 فیصد ووٹ حاصل کر سکے ہیں اور ٹرن آؤٹ 30 سے 40 فیصد رہا۔ سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو الیکشن کے عمل میں حصہ نہیں لیتے، کیا وہ 10 فیصد ووٹ حاصل کرنے والوں کے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہیں؟
بلوچستان کے بلوچ حلقوں میں قوم پرستوں کے بقول منظم دھاندلی کے ذریعے انہیں ہروایا گیا مگر اس کو مانتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جن حلقوں میں قوم پرست جیتے ہیں وہاں بھی ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ ٹرن آؤٹ کی کمی سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ بلوچ حلقوں میں پارلیمانی سیاست کرنے والے قوم پرستوں کا بیانیہ کمزور ہو چکا ہے اور غیر پارلیمانی سیاست کرنے والوں کے بیانیے کو مضبوط ہونے میں مدد مل رہی ہے۔
حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج میں قوم پرست جماعتیں تمام تر توانائی خرچ کرنے کے باوجود بمشکل 100 سے 200 لوگ ہی اکٹھے کر سکیں اور اس تمام احتجاج میں پشتون اور ہزارہ قوم پرست بھی شامل تھے۔ یہ چار جماعتی اتحاد مل کر ایک ہزار لوگ بھی جمع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
قوم پرست جماعتیں عوام کو متحرک کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟
سیاسی مبصرین اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جب قوم پرست پارلیمنٹ تک پہنچتے ہیں تو گراؤنڈ کی سیاست سے لاتعلق ہو جاتے ہیں اور لوگوں کو سیاسی حوالے سے موبلائز کرنے کے بجائے مراعات اور ٹھیکہ داری کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کا ان پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ پانچ سال تک وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے اور عوامی ایشو کو حل کرنے کے بجائے اپنی تمام تر توانائیاں مفاد پرستوں کو خوش کرنے میں خرچ کر دیتے ہیں۔
نوجوانوں کی مایوسی
تعلیم یافتہ نوجوان چونکہ سیاسی طور پر باشعور ہیں ان کے مطابق قوم پرستوں کے قول و فعل میں تضاد ہے، وہ جب پارلیمنٹ سے باہر ہوتے ہیں تو ان کا بیانیہ بلوچ کے حق میں ہوتا ہے مگر جب یہ پارلیمنٹ کے اندر پہنچتے ہیں تو ان کا بیانیہ بدل جاتا ہے۔ بلوچ نوجوان سوچتا ہے کہ قوم پرست جماعتیں ایک بیانیے پر ثابت قدم نہیں رہتیں۔
حال ہی میں ابھرنے والی تحریک جس کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کر رہی ہیں، اس کے ابھرنے سے پارلیمانی سیاست کرنے والی بلوچ قوم پرست جماعتوں کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی آ رہی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کے بیانیہ کی بلوچ نوجوانوں میں مقبولیت اور پذیرائی سے قوم پرستوں کا بیانیہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ الیکشن میں ٹرن آؤٹ میں واضح کمی اس بات کا ثبوت ہے اور بلوچ نوجوانوں کی پارلیمانی سیاسی عمل میں عدم شرکت قوم پرست سیاسی جماعتوں کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھا رہی ہے۔
بلوچستان میں ہر الیکشن میں ٹرن آؤٹ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے اور جو لوگ منتخب ہو رہے ہیں وہ صرف 10 سے 20 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ 60 سے 70 فیصد لوگ انتخابی عمل میں حصہ ہی نہیں لیتے جو لمحہ فکریہ ہے۔ پالیسی ساز اداروں اور سیاسی جماعتوں کو اپنی جیت کی خوشی منانے سے زیادہ اس پہلو پر سوچ بچار کرنا ہو گا کہ نوجوان انتخابی عمل سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں۔