قوم پرست جماعتوں کو ہروا کر ریاست نے بلوچ نیشنل ازم کو زک پہنچائی

عام انتخابات نے جہاں بلوچستان کے عوام کو ریاست سے مزید دور کر دیا ہے، وہیں غیر پارلیمانی لوگوں کی اقلیتی آواز کو اکثریت میں بدل دیا ہے۔ سیاسی کارکنان کا پارلیمانی سیاست پر اعتبار 100 فیصد ختم ہو چکا ہے اور غیر پارلیمانی جمہوری مزاحمت کی آواز ہر طرف زور پکڑتی جا رہی ہے۔

قوم پرست جماعتوں کو ہروا کر ریاست نے بلوچ نیشنل ازم کو زک پہنچائی

ہم جمہوری، پارلیمانی اور عدم تشدد کے پیروکار بلوچ قوم پرست سیاسی کارکنان محدود وسائل میں سیاسی جدوجہد کے آفاقی نظریے کی بنیاد پر ریاست کے بنائے گئے آئینی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے قومی جبر، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، اکائیوں کے بنیادی آئینی حقوق سمیت اپنے وطن کی قومی شناخت اور بقا کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب ہمیں ایسے خدشات اور تخفظات بھی لاحق رہتے ہیں کہ کیا ریاست اور ریاست کی بااختیار مقتدرہ اب اس بات پر قائل ہو گئی ہے کہ یہ ملک جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بالادستی اور تمام قومیتوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق دینے کے بغیر نہیں چل سکتا۔

ہم ہر پانچ سال کے بعد اسی سوچ اور اسی امید کے ساتھ اپنے اپنے سیاسی پلیٹ فارم پر قومی انتخابات کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔ ہر انتخاب سے پہلے خاص کر بلوچ نیشنلسٹ سیاسی جماعتوں کو طاقتور طبقات کی طرف سے یہ یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ ریاست نے اپنی تمام تر ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے اس ملک کے عوام کو یہ حق دینے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے اپنے حقیقی نمائندوں کو چن کر پارلیمان میں بھیج سکتے ہیں تا کہ ملک کی باگ ڈور ان حقیقی عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں دی جا سکے جنہیں عوام خود منتخب کرتے ہیں۔ ہم سیاسی کارکنان ایک بار پھر ریاستی دھوکہ دہی کا شکار ہو کر اپنے سیاسی نظریے کی بنیاد پر تمام تر عوامی خدشات کے باوجود عوام کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اس دفعہ ان کا دیا گیا ووٹ ان کی قسمت کا فیصلہ کرے گا، اس مرتبہ ریاست کے پالے ہوئے بندوق بردار، منشیات فروش، دو نمبر، غیر سیاسی، غیر عوامی اور جعلی لوگ ان سے ووٹ دینے کا حق چھین سکتے ہیں اور نا ہی ان کا ووٹ چرایا جا سکتا ہے کیونکہ ریاست نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب عوامی معاملات میں کسی قسم کی دونمبری کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اب عوام جس کو اپنا نمائندہ منتخب کریں گے وہ ایوان میں بیٹھنے اور عوامی نمائندگی کا حق دار ہو گا۔

بلوچستان کے عوام کو چونکہ ریاست کے کسی وعدے پر بھروسہ نہیں لہٰذا وہ ہم سیاسی کارکنان سے ہر الیکشن مہم میں یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ کیا اب ہمارے ووٹ کی عزت اور حفاظت ہو گی، کیا اب آپ لوگ ہمارے ووٹ کا تحفظ کر سکیں گے؟ واضح رہے کہ عوام ہم سیاسی لوگوں سے اپنے روزمرہ معاملات، سماجی اور عوامی مشکلات سے متعلق بہت کم کوئی سوال کرتے ہیں۔ وہ بے روزگار ہیں، زندگی کی تمام تر سہولیات سے محروم ہیں، ان کے گھروں میں پانی ہے، بجلی ہے اور نا ہی گیس ہے۔ ان کے علاقوں میں صحت اور تعلیم کی بھی کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ وہ سب باخبر ہیں اور جانتے ہیں کہ جب ہمارا ووٹ محفوظ ہو گا، جب ہمارے حق رائے دہی کا تحفظ ہوگا تو ہمارا منتخب کیا گیا نمائندہ ہم میں سے ہی ہو گا۔ وہ ہماری تمام مشکلات کا ادراک خود رکھتا ہو اور اسی درد و کرب کا مارا ہو گا۔

انہیں صرف اپنے ووٹ کے تحفظ کی فکر ہے۔ بدقسمتی سے ہم سیاسی کارکنان انہیں ہر دفعہ یقین دلاتے ہیں کہ انشاء اللہ اب ریاست کو اپنی تمام غلطیوں کا احساس ہے، اب وہ آپ کے ووٹ کو کسی طور آپ سے نہیں چھینے گی۔ آپ اس امید اور یقین سے ووٹ کے لیے نکلیں کہ اب آپ کا ووٹ آپ کے منتخب نمائندے کو جائے گا۔ یہ تسلی پا کر ووٹر بیچارہ تمام تر مشکلات اور امن و امان کی سنگین صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے نکلتا ہے اور بھرپور تیاری کے ساتھ یہ مرحلہ مکمل کرتا ہے مگر رات کے اندھیرے میں ہمیں پھر آہستہ آہستہ معلوم ہونا شروع ہوتا ہے کہ ریاست نے سبق سیکھنے کے نام پر ہمیں اور عوام کو ایک بار پھر دھوکہ دیا ہے۔

میں صرف ایک حلقے کی بات کرتا ہوں جہاں دو مہینے تک شب و روز میں بذات خود علاقے میں موجود رہا، باقی بلوچستان کا قصہ بھی اس سے مخلتف نہیں ہے۔ میں کیچ کے جس حلقے میں موجود تھا وہاں پولنگ سٹیشنز کی کل تعداد 50 تھی۔ یہ کیچ کا سب سے چھوٹا حلقہ ہے۔ مکران سمیت پورے کیچ میں نیشنل پارٹی کی سیاسی مقبولیت کا اندازہ پورے ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کو ضرور ہو گا۔ قائد بلوچ ڈاکٹر مالک بلوچ کی وزارت اعلیٰ کا ڈھائی سالہ دور ملکی تاریخ میں ایک انوکھی داستان ہے۔ بدترین سیاسی مخالف بھی اس کا اعتراف کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں۔ 8 فروری سے پہلے اور بعد میں جتنے بھی سروے کروائے گئے، خواہ وہ عوامی تھے، سرکاری اداروں نے کروائے یا غیر سرکاری اداروں نے، ان سب کے مطابق نیشنل پارٹی پورے مکران میں تمام سیٹوں پر کلین سویپ کرتی نظر آ رہی تھی اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے جس کی گواہی اس حلقے سے لیجیے جہاں کا میں ذکر کر رہا ہوں۔

50 پولنگ سٹیشنز میں سے 44 پولنگ سٹیشنوں سے نیشنل پارٹی کے امیدوار بھاری مارجن سے جیتے ہیں۔ 3 پولنگ سٹیشنز پر عملہ نہیں پہنچا اور اس وجہ سے ان پولنگ سٹیشنز پر ووٹنگ ہی نہیں ہوئی۔ باقی کے 3 پولنگ سٹیشنز سے پیپلز پارٹی کے امیدوار نیشنل پارٹی کے امیدواروں سے کہیں 17، کہیں 21 اور کہیں 25 ووٹوں سے آگے رہے۔ واضح رہے کہ ان تمام 50 پولنگ سٹیشنز میں سے جن پر پولنگ ہوئی ہے ان سب کے فارم 45 ہمارے پاس موجود ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 44 پولنگ سٹیشنز میں نیشنل پارٹی کے امیدوار جیت گئے ہیں اور بہت بھاری مارجن سے جیتے ہیں۔ یہاں سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو شکست ہوئی ہے۔

رات 12 بجے تک آر او صاحب اور ڈی سی صاحب نے ہزاروں لوگوں کے سامنے نیشنل پارٹی کی جیت کو کنفرم کیا اور کہا کہ کچھ عملہ ابھی تک نہیں پہنچ سکا لہٰذا کل دن 12 بجے نیشنل پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔ باقی دو حلقوں میں بھی یہی صورت حال تھی۔ تمام 4 حلقوں میں نیشنل پارٹی بھاری اکثریت سے جیت چکی تھی مگر کسی بھی امیدوار کو غیر حتمی رزلٹ نہیں دیا جا رہا تھا لہٰذا ہمیں شک ہونے لگا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ہم نے استفسار کیا کہ تمام پولنگ سٹیشنز کے فارم 45 موجود ہونے کے باوجود ہمیں کیوں نوٹیفائی نہیں کیا جا رہا تو ایک بار پھر ہمیں انتظامی اداروں اور ڈی سی صاحب کی طرف سے تسلی دی گئی کہ الیکشن عملے سے متعلقہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ تاخیر ہو رہی ہے۔ اس جواب کے بعد ہم ایک بار پھر دھوکہ کھا گئے جبکہ ہزاروں کارکنان ڈی سی اور آر او آفس پہنچ کر مکمل گھیراؤ کر کے دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے مگر سیاسی قیادت ایک بار پھر دھوکہ کھا گئی۔ صبح پتہ چلا کہ 44 پولنگ سٹیشنز سے جیتنے کے باوجود نیشنل پارٹی کے امیدوار کو زبردستی ہروا کر پیپلز پارٹی کے امیدوار کو صرف تین پولنگ سٹیشنز سے جعلی رزلٹ بنوا کر جتوایا گیا۔ آر او نے گھبراہٹ میں تین جعلی غیر حتمی رزلٹ جاری کیے کیونکہ چوری، بے ایمانی اور دونمبری چاہے جتنی بھی چالاکی سے کی جائے، ثبوت لازمی چھوڑتی ہے۔ اب یہ نیا حیران کن نتیجہ ہے کہ ایک امیدوار 44 پولنگ سٹیشنز سے جیت کر بھی ہار گیا ہے اور دوسرا صرف 3 پولنگ سٹیشنز سے جیت کے ہی سیٹ جیت گیا ہے۔ اس میں ریاستی طاقت کے ساتھ ساتھ پیسے اور بندوق کی طاقت بھی شامل ہے جو محض تین پولنگ سٹیشنز جیتنے والے امیدوار کو کامیاب کروا سکتی ہے۔

یہ ایک واقعہ ہے جبکہ پورا بلوچستان اس الیکشن میں زبردستی طاقت، بندوق اور ریاستی زور پر بلوچستان کے لوگوں سے چھینا گیا ہے۔ بلوچ نیشنل ازم سے خائف طاقتور قوتوں کی پلاننگ نہ صرف آشکار ہو گئی ہے بلکہ اب انہوں نے دن دیہاڑے یہ بھی مان لیا ہے کہ اب ریاست کی طرف سے بلوچ نیشنل ازم کو سختی سے کچلا جائے گا۔ ریاست نے قوم پرست جماعتوں کو دیوار سے لگا کر بلوچ کو دوٹوک اور واضح پیغام دیا ہے کہ اب ریاست جمہوری، آئینی اور عوامی حق رائے دہی کی بنیاد پر کسی کو اجازت نہیں دے گی کہ وہ ایوان میں آ جائے اور قومی سوال کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ قومی وحدتوں کے آئینی، جمہوری حقوق اور قومی معاملات پر آواز اٹھائے۔

اس مرتبہ بلوچستان میں ایسے ایسے لوگوں کو ایوان میں بھیجا گیا کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔ ہمیں پارلیمانی جمہوری سیاست کے طعنے دینے کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر خبردار بھی کیا جا رہا ہے کہ آئندہ کوئی بھی بلوچ قوم پرست جماعت عوام سے ووٹ دینے کا کسی بھی طور مطالبہ نہ کرے۔ عوامی دباؤ کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنان میں بھی جمہوری مزاحمت اور غیر پارلیمانی طرز سیاست کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر آئے روز بحث مباحثہ ہو رہا ہے کہ پارلیمانی سیاست میں جب عوام کو حق رائے دہی ہی حاصل نہیں، ریاست جس کو چاہتی ہے بغیر کسی عوامی ووٹ کے اس کو منتخب کرتی ہے تو پھر اسے عام انتخابات کا نام کیوں دیا جاتا ہے؟

8 فروری کے الیکشن نے جہاں ایک طرف بلوچستان کے عوام کو ریاست سے مزید دور کر دیا ہے وہیں غیر پارلیمانی لوگوں کی ایک اقلیتی آواز کو اکثریت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب پارلیمانی جماعتوں کے کارکنان کا پارلیمانی سیاست پر اعتبار 100 فیصد ختم ہو چکا ہے۔ ہر طرف غیر پارلیمانی جمہوری مزاحمت کی آواز زور پکڑتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ہزاروں نوجوان سیاسی کارکنوں کی جبری گُمشدگی اور بلوچ عورتوں، بچوں اور بزرگوں کے جمہوری لانگ مارچ اور ریاست کی طرف سے اُن پر طاقت کے بے دریغ استعمال نے شدید قسم کی نفرت کو جنم دیا ہے۔

حالیہ الیکشن مہم میں ہم سیاسی کارکنوں کو لوگوں کی بدترین تنقید کا سامنا رہا ہے۔ ایک طرف غیر پارلیمانی سیاست کرنے والے سیاسی کارکنوں کے مؤقف کو اس حالیہ الیکشن میں نا صرف پذیرائی ملی ہے بلکہ ان کے خدشات 100 فیصد درست ثابت ہو گئے ہیں کہ ریاست ووٹنگ کے نام پر ڈرامہ رچا کر اپنے سہولت کاروں کو عوامی رائے کے نام پر جعلی طریقے سے عوام پر مسلط کرتی ہے اور عملی طور پر یہ بات 100 فیصد درست ثابت ہوئی۔

ان تمام تر حالات اور حقائق کے پیش نظر قوم پرست جماعتوں کے کارکنان اپنی قیادت سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہوش کے ناخن لے کر بلوچ کو مستقل طور پر مضبوط، منظم اور قومی امنگوں کے عین مطابق ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں جہاں بلوچ متحد ہو کر اتفاق اور یکجہتی کے ساتھ ریاست کے منفی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کر سکے، ورنہ ریاست کی پالیسیاں بلوچ نیشنل ازم اور بلوچستان کے لیے آنے والے وقتوں میں مزید خطرناک ہو جائیں گی۔ اگر بلوچ اسی طرح ٹکڑوں میں بٹ کر ایک دو سیٹوں پر شکرانے کے نفل پڑھیں گے تو بلوچستان اور بلوچ کا خدا ہی حافظ ہے۔ ان تمام ریاستی حربوں کے باوجود اگر بلوچ قوم پرست جماعتیں اس کو قسمت کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیں گی اور پارلیمان انہی غیر سیاسی دو نمبر طریقے سے مسلط کیے گئے جعلی نمائندوں کے ساتھ گزارہ کر لے گی تو سیاسی کارکنان اور عوام اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں گے۔

عوام اب کسی بھی طور کوئی مصلحت پسندی اور سیاسی کمپرومائز کے ہرگز موڈ میں نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو زمینی حقائق کا ادراک ہونا چاہیے ورنہ حالات کسی بھی طور اب اس طرح کے نہیں ہیں کہ عوام ان تمام ہتھکنڈوں کو بھول کر ایک بار پھر انہی پرانی بنیادوں پر دھوکہ کھائیں۔ اب عوام میں ایک خطرناک مزاحمتی رجحان پایا جاتا ہے۔ اگر ہماری قوم پرست جماعتوں نے عوام کی نبض پر ہاتھ نہ رکھا، ان کی سیاسی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش نہ کی تو یہ رجحان لاوے کی صورت اختیار کر جائے گا اور خود رو تحریک بن کر نا صرف سماج اور سیاسی ماحول کو ملیامیٹ کر دے گا۔ یہ صورت حال قومی انتشار کی طرف بھی بڑھ سکتی ہے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ اور سردار اختر جان اس صورت حال کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ایک مشترکہ سیاسی حکمت عملی کی طرف بڑھیں، ورنہ یہ عوامی مزاج کوئی طوفان برپا کر سکتا ہے۔