بلوچستان کے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں سردار اختر مینگل کا استعفیٰ اپنی نوعیت کا ایک اہم اور منفرد استعفیٰ ہے جس کا ہر زاویے سے تنقیدی و تعریفی جائزہ لیا جا رہا ہے اور مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ ہر ایک اسے اپنے نقطہ نظر سے دیکھ رہا ہے اور اس کا تجزیہ و تحلیل کر رہا ہے۔ کوئی اسے ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہا ہے تو کوئی اور اسے عارضی احتجاج اور ردعمل سمجھ رہا ہے۔ کوئی اسے اختر مینگل کی شدید مایوسی اور فرسٹریشن کا اظہار تو کوئی اسے آئندہ کی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہا ہے۔ جبکہ چند ناقدین اسے ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی قیادت میں اُبھرنے والی نئی سول رائٹس موومنٹ سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
اس ضمن میں بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ عام انتخابات سے محض 6 ماہ بعد سردار اختر مینگل کو اپنا استعفیٰ کیوں دینا پڑا؟ ایسا کون سا واقعہ رونما ہوا تھا جس نے سردار اختر مینگل کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا حالانکہ 4 ماہ قبل وڈھ کے ضمنی الیکشن میں سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت نے ناصرف انتہائی جوش و خروش سے اپنے امیدوار کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی بلکہ اس ضمنی الیکشن کو اتنا اجاگر کیا تھا کہ ایسے گُمان ہو رہا تھا کہ بلوچوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ اسی ضمنی الیکشن کے ساتھ وابستہ ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے، اختر مینگل کی یہ سب سے بڑی خصوصیت اور ہنرکاری ہے کہ وہ وکٹم کارڈ کو انتہائی سلیقے اور طریقے سے استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں۔ بلوچستان کے کسی بھی سیاسی رہنما کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں ہے۔ وہ اپنے پتے مہارت سے پھینکنے کا ہُنر اور گُر جانتے ہیں۔ ہمیشہ ان کے ایک ہاتھ میں تُرپ کا پتہ اور دوسرے ہاتھ میں وکٹم کارڈ ہوتا ہے۔ وہ سیاسی کھیل کے بہت بڑے ماہر اور مستند کھلاڑی ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے حالات کے عین مطابق ایک ایسا ہی کھیل کھیلا ہے اور خود کو سب کی توجہ کا مرکز بنا لیا ہے۔
سردار اختر مینگل کے بقول انہوں نے اپنے استعفیٰ کے فیصلے پر کسی سے مشاورت کی اور نا ہی اپنی پارٹی کی مرکزی کابینہ کو اعتماد میں لیا۔ انہوں نے مرکزی کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے ان کی بھی رائے نہیں پوچھی بلکہ اکیلے ہی بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔ ان کی اس سولو فلائٹ پر سب سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔ ان کے ایک پرانے سیاسی رفیق، سنگی اور بی ایس او کے سابق چیئرمین وحید بلوچ نے تو اس عمل کو انتہائی غیر جمہوری قرار دیا ہے۔ سردار صاحب کے دیگر سیاسی ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں تو جمہوریت اور جمہوری قدروں کے نہ ہونے کا رونا روتے ہیں لیکن ان کا اپنا فیصلہ اور رویہ غیر جمہوری ہے۔ ان کی اپنی پارٹی میں جمہوریت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ وہ گذشتہ 30 سالوں سے پارٹی کی صدارت پر فائز ہیں، پارٹی کے تمام فیصلے وہ خود کرتے ہیں، البتہ جب دفاع اور جواب کی باری آتی ہے تو پارٹی کو فرنٹ لائن پہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر اسی قسم کی کئی تنقیدی آرا اور نقطہ ہائے نظر سامنے آ رہے ہیں۔
اس سے قطع نظر سردار اختر مینگل بلوچستان کی قوم پرست سیاست میں ایک نمایاں اور اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ وہ بلوچستان کے پہلے منتخب عوامی وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحب زادے ہیں۔ سردار اختر مینگل کی اپنی ایک سیاسی جدوجہد اور تاریخ ہے جو تقریباً تین سے زیادہ عشروں پر محیط ہے۔ انہوں نے اپنی 35 سالہ سیاست کی تاریخ میں کئی سیاسی نشیب و فراز دیکھے ہیں اور ایک باوقار سیاسی زندگی گزاری ہے۔ وہ دور جدید میں بلوچستان کی چند پارلیمانی آوازوں میں سے ایک توانا آواز ہیں۔ لیکن وہ تنقید سے بالاتر نہیں ہیں چونکہ وہ پبلک پراپرٹی ہیں تو ان پر تنقید کرنا ہر کسی کا حق ہے۔ جب وحید بلوچ ایک تنقیدی نقطہ نظر سامنے لائے تو ان کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع کی گئی۔ لہٰذا کسی سے تنقید اور سوال کا حق چھیننا خود بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔
سردار اختر مینگل نے پارلیمانی سیاست کا آغاز 1980 کی دہائی کے اواخر میں اس وقت کیا جب بلوچ نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کی نئی ابھرتی ہوئی تحریک نے اپنے ایک سابق طالب علم رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی قیادت میں پہلے مرحلے میں 24 دسمبر 1987 کو 'بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ' اور بعد میں 15 جولائی 1989 کو 'بلوچستان نیشنل موومنٹ' کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کی گئی جس نے نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ مل کر 'بلوچستان نیشنل الائنس' کے نام سے ایک انتخابی اتحاد قائم کیا اور 1988 کے عام انتخابات میں نواب اکبر خان بگٹی کی قیادت میں حصہ لیا۔ سردار اختر مینگل نے بھی اس انتخابی الائنس کے پلیٹ فارم پر نال وڈھ کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا اور پہلی مرتبہ کامیاب ہو کر بلوچستان اسمبلی کے رکن بن گئے۔ یہیں سے ان کی پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوا۔
چونکہ ان کی جماعت بی این وائی ایم بلوچستان نیشنل الائنس کا حصہ تھی تو ان کی جماعت کے رکن کہدہ اکرم دشتی کو بلوچستان اسمبلی کا سپیکر منتخب کیا گیا جبکہ ایک اور رکن اسمبلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو محکمہ صحت کا قلمدان سونپا گیا۔ سردار اختر مینگل نے بعض وجوہات کی بنا پر خود وزارت لینے اور نواب بگٹی کی کابینہ میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔ بعد ازاں، نواب بگٹی کے ساتھ ان کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے جس کے نتیجے میں پارٹی کو یہ سخت لائن دی گئی کہ وہ ناصرف نواب بگٹی کی مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کرے بلکہ ٹریژری بنچوں کے بجائے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جائے۔ پارٹی نے بہ دل نخواستہ اپنے دونوں ارکان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور کہدہ اکرم دشتی سے استعفے طلب کر لیے لیکن بلوچستان نیشنل موومنٹ نے ڈاکٹر عبدالحئی کی قیادت میں نواب بگٹی کی حکومت کو اس وقت تک گرنے اور کمزور ہونے نہیں دیا جب تک کہ صدر غلام اسحاق خان نے اگست 1990 میں اسمبلیاں تحلیل کر کے ملک میں نئے انتخابات کا اعلان نہ کر دیا۔
بعد میں نواب بگٹی نے اپنی ایک الگ سیاسی جماعت 'جمہوری وطن پارٹی' کے نام سے قائم کی حالانکہ وہ بلوچستان نیشنل الائنس کو ایک سیاسی پارٹی بنانے کے خواہاں تھے اور اسی پلیٹ فارم پر بی ایس او کے سابق رہنماؤں کے ساتھ مستقبل کی سیاست کرنا چاہتے تھے لیکن اندرونی چپقلش، باہمی مخالفت اور غیر جمہوری رویوں کی وجہ سے ناصرف یہ اتحاد وقت سے پہلے بکھر گیا بلکہ سب کے راستے بھی جدا ہو گئے۔ 1970 کے بعد یہ دوسری پارلیمانی پریکٹس تھی جو ناکام ثابت ہوئی۔
بی این ایم کے اندر ایک دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہو گئی جب پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے پنجگور کی صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے کچکول علی ایڈووکیٹ کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا جبکہ سردار اختر مینگل نے اس ٹکٹ کا صحیح حقدار اسد اللہ بلوچ کو قرار دے دیا۔ چند اور نشستوں پر بھی اس طرح کے اختلافات سامنے آئے لیکن پارلیمانی بورڈ نے سردار اختر مینگل کے تمام اعتراضات مسترد کر دیے۔ یوں انہوں نے ناصرف شدید ناراضگی کا اظہار کیا بلکہ الیکشن کے عین موقع پر ناصرف الیکشن سے دستبردار ہو گئے بلکہ پارٹی کے مرکزی سینیئر نائب صدر کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا جس سے پارٹی ایک بہت بڑے آئینی، سیاسی اور تنظیمی بحران کا شکار ہو گئی۔
اس کے اثرات انتخابی نتائج پر بھی پڑے جس کے نتیجے میں بی این ایم کو بمشکل دو نشستیں ملیں۔ تربت سے ڈاکٹر مالک بلوچ اور پنجگور کی نشست پر کچکول علی ایڈووکیٹ جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ بی این ایم کے باقی تمام امیدوار ہار گئے۔ بعد ازاں، بی ایس او کے مرکزی چیئرمین شہید غلام محمد بلوچ کی مفاہمتی اور مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اختر مینگل اور ان کے ساتھیوں کو دوبارہ پارٹی میں خوش آمدید کہا اور ان کی سابقہ حیثیت بحال کی۔ یوں بی ایس او کی اپیل اور درخواست پر یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا لیکن فریقین کے دلوں میں رنجشیں اور کدورتیں موجود تھیں اس لیے یہ مفاہمتی اور مصالحتی عمل دیرپا ثابت نہ ہو سکا۔
15 نومبر 1991 کو جب بلوچستان نیشنل موومنٹ کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی زیر صدارت منعقد ہوا تو پارٹی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی؛ بی این ایم حئی اور بی این ایم مینگل۔ ایک دھڑے کی قیادت اختر مینگل نے کی جس میں مرحوم ایوب جتک، وحید بلوچ، مہیم خان بلوچ، اسد اللہ بلوچ و دیگر شامل تھے جبکہ دوسرے حصے کی قیادت ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے کی جس میں کچکول علی ایڈووکیٹ، ڈاکٹر یاسین، ڈاکٹر مالک بلوچ، مولا بخش دشتی، کہدہ اکرم دشتی، میر عبدالخالق لانگو، عبداللہ جان محمد شہی، رجب علی رند، عبدالرحیم رند، مجید بزنجو و ان کے دیگر ہم خیال دوست شامل تھے۔
بلوچستان نیشنل موومنٹ کی تقسیم کی وجہ سے بلوچ طالب علموں کی نمائندہ طلبہ تنظیم بی ایس او جس کی قیادت شہید غلام محمد بلوچ کر رہے تھے، بھی دو حصوں میں بٹ گئی۔ بی ایس او (حئی) اور بی ایس او (مینگل) کے نام سے دو گروہ بن گئے۔ چیئرمین غلام محمد بلوچ کی قیادت میں بی ایس او نے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی حمایت کا اعلان کر دیا جبکہ سینیئر وائس چیئرمین رحیم بلوچ ایڈووکیٹ، مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر ایوب بلوچ (زہری) و رضا شاہ بلوچ نے اختر مینگل کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یوں بی ایس او بھی پارلیمانی جماعتوں کی ٹکٹوں کی تقسیم، نشستوں کی بندربانٹ، ذاتی ضد و انا، غیر جمہوری اور غیر نظریاتی رویوں کی وجہ سے تنظیمی بحران اور دھڑے بندیوں کا شکار ہو گئی اور آنے والے وقتوں میں انتہائی غیر مؤثر اور بے اثر ہو کر رہ گئی جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہی ہے۔
دوسری جانب سردار اختر مینگل اور ان کے ہم خیال دوستوں نے اپنے دھڑے کا قومی کونسل سیشن 29 اور 30 دسمبر 1991 کو کوئٹہ میں طلب کر لیا اور ایک نئی اور متبادل مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی سامنے لے آئے۔ بعد میں بی ایس او سہب اور حبیب جالب بلوچ کی پروگریسو نیشنل موومنٹ کے ساتھ اشتراک کر کے 15 جولائی 1994 کو دونوں جماعتوں کے مشترکہ کونسل سیشن کے نتیجے میں سردار اختر مینگل بی این ایم مینگل کے مرکزی صدر اور حبیب جالب بلوچ مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہو گئے۔ بی ایس او سہب اور بی ایس او مینگل کے انضمام کے نتیجے میں رحیم بلوچ ایڈووکیٹ مرکزی چیئرمین، پزیر بلوچ مرکزی سیکرٹری جنرل، آغا حسن بلوچ پریس سیکرٹری جبکہ سعید فیض، ثناء بلوچ و دیگر مرکزی کمیٹی کے رکن منتخب ہو گئے۔
جب سردار عطاء اللہ مینگل طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس تشریف لائے تو انہوں نے 1996 میں سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل موومنٹ اور میر حاصل خان بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی کا انضمام کروا کر ' بلوچستان نیشنل پارٹی' کے نام سے ایک نئی بلوچ قوم پرست جماعت قائم کی۔ فروری 1997 کے عام انتخابات میں سردار صاحب کی جماعت نے گوادر سے لے کر مستونگ تک کلین سویپ کر دیا جس سے بی این پی بلوچستان اسمبلی میں ایک واضح پارلیمانی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ بعد ازاں سردار مینگل نے نواب اکبرخان بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی کے ساتھ مل کر ڈھائی سالہ فارمولہ کے تحت ایک معاہدہ کیا جس کے ذریعے پہلے مرحلے میں سردار اختر مینگل جبکہ دوسرے مرحلے میں نوابزادہ سلیم بگٹی کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ ہونا تھا۔ یوں معاہدہ کے تحت پہلے مرحلے میں سردار اختر مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے لیکن جلد ہی ان کی یہ مخلوط حکومت اسلام آباد کی سازش، باہمی اختلافات اور آپسی چپقلشوں کا شکار ہو گئی۔
اس کا آغاز اس وقت ہوا جب سردار اختر مینگل نے جمہوری وطن پارٹی کو اپنی کابینہ سے نکال دیا جس سے نواب بگٹی اور ان کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے۔ نواب بگٹی نے سردار اختر مینگل پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر دیا۔ دوسری طرف 28 مئی 1998 کو راسکوہ میں ایٹمی دھماکے کروائے گئے جس سے سردار اختر مینگل کی حکومت مزید دباؤ اور تناؤ کا شکار ہو کر شدید تنقید کی زد میں آ گئی۔ انہیں ناصرف سیاسی مخالفین بلکہ اپنی پارٹی کے اندر سیاسی و نظریاتی کارکنوں کی طرف سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر دھماکے کے دوران نواز شریف کی گاڑی کو ڈرائیو کرنے پر ان پر کڑی تنقید کی گئی۔
ڈیڑھ ماہ بعد 15 جولائی 1998 کو کوئٹہ میں بی این پی کی پہلی کانگریس منعقد ہوئی جس میں پارٹی کے مرکزی چیف آرگنائزر سردار عطاء اللہ مینگل نے بند کمرہ اجلاس کے پہلے روز پارٹی وزرا کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی کارکردگی کو انتہائی مایوس کن اور غیر تسلی بخش قرار دیا اور ان کی کرپشن اور اقربا پروری کے حقائق کونسلران کے سامنے رکھ دیے تو سب کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اس کے ردعمل میں پارٹی کے وزرا اسد اللہ بلوچ، سید احسان شاہ، میر محمد علی رند، میر غفور کلمتی، سردار بہادر خان بنگلزئی، میر اسرار اللہ زہری و دیگر نے سردار مینگل کے خلاف پارٹی کے اندر بغاوت کا اعلان کر دیا اور مہیم خان بلوچ کی سربراہی میں ' بلوچستان نیشنل پارٹی' کے ساتھ 'عوامی' کا لاحقہ چسپاں کر کے سردار عطاء اللہ مینگل اور اپنے وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کے خلاف کھل کر سامنے آ گئے۔