Get Alerts

سردار اختر مینگل نے استعفیٰ دے کر وکٹم کارڈ کھیلا؟ (آخری حصہ)

گندے نظام میں رہتے ہوئے کسی سے انقلابی بننے کی توقع رکھنا عبث کے سوا کچھ نہیں۔ ایک طرف سردار اختر مینگل نے اپنا استعفیٰ دے دیا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنے مطالبات بھی پیش کر رہے ہیں جبکہ ان کی جماعت آئینی ترامیم کے سلسلے میں مذاکرات بھی کر رہی ہے۔

سردار اختر مینگل نے استعفیٰ دے کر وکٹم کارڈ کھیلا؟ (آخری حصہ)

کہا جاتا ہے کہ ان تمام منحرف ارکان کو مقتدرہ کی آشیرباد اور خفیہ اداروں کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی ورنہ ان کے اپنے اندر اتنی جرات نہ تھی کہ وہ کھل کر سردار مینگل کے خلاف میدان میں آ جاتے۔ یوں یہ بلوچ قوم پرست پارٹی ڈیڑھ سال کے اندر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ یہ بلوچوں کی تیسری پارلیمانی پریکٹس تھی جو بری طرح فلاپ ہو گئی۔ بعد میں بی این پی عوامی مزید تقسیم کا شکار ہوتی گئی اور اس کا شیرازہ بکھرتا چلا گیا، بلکہ بعد میں 'عوامی' کے چار مزید دھڑے سامنے آ گئے۔ ایک دھڑا حاصل خان بزنجو کی 'بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی' کی شکل میں سامنے آیا۔ دوسرا دھڑا سید احسان شاہ کی قیادت میں 'پاکستان نیشنل پارٹی عوامی' کے نام سے، تیسرا گروپ اسرار زہری کی سربراہی میں جبکہ چوتھا گروپ اسد اللہ بلوچ کی قیادت میں سامنے آیا جو اب بھی وینٹی لیٹر پر موجود ہے اور آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ہر ریاستی انتخابات کے موقع پر یہ 'عوامی' دھڑے ٹکٹوں کی تقسیم یا وزارتوں کی بندربانٹ پر آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے اور ہر سال ایک نیا دھڑا سامنے آتا رہا۔

اس مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں؛ سردار اختر مینگل نے استعفیٰ دے کر وکٹم کارڈ کھیلا؟ (پہلا حصہ)

دوسری جانب سردار اختر مینگل کی قیادت میں بی این پی اپنی جگہ پر قائم رہی اور ان کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ البتہ متحدہ بی این پی کی تقسیم کے اثرات اس وقت بی ایس او پر بھی پڑے۔ بی ایس او مینگل جس کی قیادت سعید فیض کے ہاتھوں میں تھی، نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے اندر دھڑے بندیوں کا سارہ ملبہ سردار مینگل پر ڈال دیا اور انہیں 'لندن گروپ' کے نام سے منسوب کر دیا حالانکہ بظاہر بی ایس او میں ہونے والی دھڑے بندیوں سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ یوں بی ایس او دو حصوں میں تقسیم ہو گئی؛ ایک دھڑے کی قیادت سعید فیض اور شہید حمید شاہین نے کی جبکہ دوسرے دھڑے کی قیادت منظور بلوچ اور میر حمل نے کی۔ سعید فیض نے منحرف ارکان کا ساتھ دیا جبکہ منظور بلوچ نے سردار مینگل کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

بی این پی کے منحرف ارکان اور باغی دھڑے نے سردار عطاء اللہ مینگل اور سردار اختر مینگل کی جس طریقے سے اور جس جارحانہ انداز سے کردار کشی کی اس کی نظیر بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اگر 15 جولائی 1998 سے لے کر اکتوبر 1999 تک کے اخبارات کی فائلوں کا مطالعہ کیا جائے تو لگائے گئے الزامات، ذاتی نوعیت کی تنقید اور کردار کشی پر مشتمل بیانات کے متعلق ایک جامع تحقیقی مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے جب گذشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی میں علی مدد جتک اور اسد اللہ بلوچ آمنے سامنے آئے تو ذہن فوراً فلیش بیک میں چلا گیا جہاں 1998 کو کوئٹہ کے منان چوک پر بی این پی عوامی کے قائدین اسد بلوچ، اسرار زہری و دیگر رہنما سردار مینگل کی کردار کشی کی مہم میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے کوششوں میں مصروف تھے۔ یعنی جس اسد بلوچ کی ٹکٹ کے لیے سردار اختر مینگل نے 90 کی دہائی میں اپنی پارٹی کو ایک بہت بڑے بحران سے دوچار کر کے دوستوں کو ناراض کر دیا تھا اب وہی اسد بلوچ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ان کے خلاف بول پڑے۔

بی این پی کی تقسیم کی وجہ سے سردار اختر مینگل اپنی پارٹی کے اندر سے ہی کمزور پڑ گئے تھے اور پارلیمانی عددی اکثریت کھو چکے تھے۔ ان کے علاوہ اس کے ساتھ صرف تین ارکان یعنی پرنس موسیٰ جان، شہید اسلم جان گچکی اور غالباً ڈاکٹر تارا چند ہی رہ گئے تھے، باقی تمام ارکان منحرف ہو چکے تھے۔ اس لیے نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن نے بھی اپنی حمایت واپس لے لی حالانکہ نواز شریف نے آخر تک سردار اختر مینگل کو ہر طرح کا تعاون اور مدد فراہم کی لیکن چونکہ ان کا اپنا گھر ٹھیک نہیں تھا اور گھر کے معاملات ان کے کنٹرول کی بجائے کسی اور طاقتور کے کنٹرول میں چلے گئے تھے تو بالآخر سردار اختر مینگل کو وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا جبکہ دوسری طرف ان کے منحرف ارکان نے مسلم لیگ ن کے جان محمد جمالی کو اپنا نیا قائد ایوان منتخب کر لیا۔ یوں بی این پی کے سارے منحرف ارکان جان محمد جمالی کی کابینہ میں وزیر و مشیر بن کر کرپشن اور لوٹ مار کے سمندر میں گھوتے کھانے لگے۔

جب اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے عنان اقتدار سنبھال کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا تو یہ سارے منحرف ارکان پکڑ دھکڑ کے ڈر سے بلوچستان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ کسی نے دبئی میں پناہ لے لی، کسی نے سنگاپور کا رخ کر لیا تو کسی اور نے لندن کی فلائٹ پکڑ لی لیکن سردار اختر مینگل ناصرف بلوچستان میں موجود رہے بلکہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے فوجی مارشل لاء اور آمریت کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ جب 26 اگست 2006 کو ممتاز بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کی شہادت کا اندوہناک واقعہ رونما ہوا تو سردار اختر مینگل نے اس گھناؤنے قتل کے خلاف بطور احتجاج اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا حالانکہ ان کی جماعت اس کے حق میں نہیں تھی۔ ان کی پارٹی کا ایک سینیٹر آخر تک لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔

گمان یہی تھا کہ سردار اختر مینگل پارلیمانی سیاست کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دیں گے۔ ان پر اس کا دباؤ بھی تھا۔ جب فروری 2008 کے عام انتخابات میں بلوچ اور پشتون قوم پرستوں نے ایک ساتھ بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تو سردار اختر مینگل کی جماعت بھی اس بائیکاٹ میں پیش پیش تھی لیکن انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ خضدار اور وڈھ کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اپنے آزاد امیدوار کھڑے کر دیے جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی نشست پر عثمان ایڈووکیٹ اور وڈھ کی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر عبدالرحمٰن مینگل سردار اختر مینگل اور بی این پی کے حمایت یافتہ امیدوار تھے۔ یہ دونوں امیدوار جیتنے والوں میں شامل تھے۔ اس طرح نیشنل پارٹی بھی بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں میں سرفہرست تھی لیکن نال کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر سردار اسلم بزنجو نے بطور آزاد امیدوار حصہ لیا اور وہ بھی جیت گئے کیونکہ انہیں بھی اپنی پارٹی کی در پردہ حمایت حاصل تھی۔

مئی 2013 کے عام انتخابات میں بی این پی نے ایک دفعہ پھر انتہائی بھرپور طریقے سے حصہ لیا جس کے نتیجے میں بی این پی کو قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں مل گئیں۔ جب 2018 کے عام انتخابات سے چند مہینے قبل سردار ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو بی این پی کے ووٹوں کی اہمیت بڑھ گئی۔ اس لیے اختر مینگل نے اپنی پارٹی کے دونوں ووٹوں سے ایک بہت بڑا معرکہ سر کر لیا۔ انہوں نے اس دفعہ بھی اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیلے۔ ایک طرف قدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بنوایا تو دوسری طرف 2018 کے عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی پارلیمانی قوت کو وسعت دینے کا بندوبست بھی کر لیا۔

ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ قدوس بزنجو کی بھرپور حمایت کے عوض بی این پی کو 2018 کے عام انتخابات میں ان کے حجم سے زیادہ غیر معمولی پیکج سے نوازا گیا جس میں ایک درجن کے قریب صوبائی اسمبلی کی نشستیں اور 4 قومی اسمبلی کی نشستیں شامل تھیں۔ اگر منظور بلوچ اور حاجی لشکری رئیسانی کی جیت کو ہار میں تبدیل نہ کیا جاتا تو بی این پی کی یہ نشستیں 6 تک پہنچ جاتیں جو بلوچستان کے حوالے سے ایک بہت بڑا سائز ہوتا۔ اس سے اختر مینگل کو مرکز میں کھیلنے کا اور بھی مزہ آتا لیکن شاید اس لیے ہاتھ کو ہلکا رکھا گیا۔

بی این پی نے قومی اسمبلی کی ان 4 نشستوں سے شہر اقتدار میں کافی توجہ حاصل کی۔ ان کے چاروں ووٹوں نے سر باجوہ کے من پسند امیدوار مسٹر عمران خان کی حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس طرح جب بلوچستان میں جام کمال کی جگہ ایک دفعہ پھر قدوس بزنجو کی لاٹری نکل آئی تو بی این پی ایک دفعہ پھر توجہ کا مرکز بن گئی۔ انہوں نے قدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ انیکسی تک پہنچانے کے لیے اپنا سیاسی کندھا فراہم کر دیا جہاں قدوس بزنجو دن کو سوتے تھے اور رات کو جاگتے تھے اور انیکسی میں بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی بھی طعام و قیام کرتے تھے۔ اس کے باوجود بی این اپی کے دوست کہا کرتے تھے کہ 'وہ قدوس بزنجو کے گناہوں میں شریک نہیں ہیں'۔

جب سر باجوہ نے عمران کی جگہ پی ڈی ایم کے شہباز شریف کو نئے فرائض سونپنے کا فیصلہ کیا تو ایک دفعہ پھر بی این پی کے ووٹوں کی ضرورت پڑ گئی جس کے عوض بی این پی کو مرکز میں دو وزارتیں جبکہ بلوچستان میں گورنرشپ دے دی گئی۔ یہ اور بات ہے کہ بی این پی کے اس لائق اور فائق گورنر نے بلوچستان کی جامعات کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یوں بی این پی نے مرکز میں شہباز شریف اور صوبہ میں قدوس بزنجو سے پی ایس ڈی پی سے لے کر جنرل فیض حمید کے چئیرمین سینیٹ کے امیدوار کو ووٹ دینے تک اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ آئینی ترامیم اور ریکوڈک جیسے بلوچ قومی دولت کے منصوبے پر حکومت کو کبھی بھی ناراضگی کا موقع فراہم نہیں کیا۔

لیکن ان پانچ سالوں کے دوران بلوچستان کے حالات جوں کے توں رہے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، فیک انکاونٹرز، مسخ شدہ لاشیں، بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں، آپریشن، ڈیتھ سکواڈ کی کارروائیاں، بلوچ قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ اور بلوچوں پر ریاستی جبر کا سلسلہ ناصرف جاری رہا بلکہ اس میں شدت بھی لائی گئی جبکہ دوسری طرف بی این پی کے اندر ٹھیکہ داری سسٹم، مراعاتی اور کاروباری سیاست کے خلاف آوازیں بھی اٹھنا شروع ہوئیں اور مختلف تنقیدی نقطہ نظر بھی سامنے آئے۔ ہمایوں عزیز کرد، حاجی لشکری رئیسانی، حسین واڈیلہ، جان محمد دشتی، حبیب جالب کے بھائی رحمت اللہ بلوچ، میر انور مزار، میر حمل بلوچ و سینکڑوں سیاسی، نظریاتی کارکنوں نے پارٹی کے ارکان اسمبلی اور وفاقی وزرا کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور پارٹی کی پالیسیوں اور کاروباری سیاست پر اپنے تحفظات کا بھرپور اظہار کیا۔ جب ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی تو مذکورہ رہنماؤں سمیت کئی سیاسی کارکنان نے یا تو خاموشی اختیار کر لی یا اپنے راستے الگ کر لیے۔

بی این پی نے سردار اختر مینگل کی قیادت میں فروری 2024 کے عام انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا اور شاندار انتخابی مہم چلائی۔ سردار اختر مینگل نے اپنی پارٹی کے پرانے منحرف رکن سید احسان شاہ کو ناصرف دوبارہ گلے لگایا بلکہ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما اور اپنے دیرینہ ساتھی ڈاکٹر عبدالغفور بلوچ کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کی جگہ ایک نووارد کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا جبکہ اس سے قبل انہوں نے سینیٹ الیکشن میں بھی اپنی پارٹی کے سینیئر و حق دار کارکنوں کی جگہ سید احسان شاہ کی بیوی کو سینیٹر بنوایا اور سید احسان شاہ کو قدوس کابینہ میں بی این پی کے کوٹے سے ان کی من پسند اور منافع بخش وزارت یعنی اے کیٹگری کی وزارت صحت کا قلمدان بھی دلوایا۔ شاہ صاحب ڈیڑھ سال تک اس وزارت سے خوب لطف اندوز ہوتے رہے جبکہ ادھر بی این پی مفت میں گناہ بے لذت میں شریک رہی۔

جب سردار اسلم بزنجو نے وڈھ کی نشست پر شفیق مینگل کو سپورٹ کیا تو سردار اختر مینگل نے بھرپور جواب دینے کے لیے تربت کی نشست پر سید احسان شاہ کو قبولیت بخشی جبکہ گودار تربت کی قومی اسمبلی کی نشست پر حسین واڈیلہ جیسے سیاسی کارکن کو سپورٹ کرنے کی بجائے ایک بدنام زمانہ غیر سیاسی اور کاروباری شخصیت کے نالائق بیٹے کو اپنا امیدوار بنایا۔ واضح رہے مذکورہ شخص کو نیشنل پارٹی نے بھی 2013 کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ سے نوازا تھا جبکہ اب کی بار یہ قومی فریضہ بی این پی نے سرانجام دیا۔ یہ بلوچستان کی پارلیمانی سیاست کا وہ بھیانک سیاسی چہرہ اور منظرنامہ ہے جسے ہم روز اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو ایک حقیقت کے ساتھ ایک درد بھری کہانی بھی ہے۔

2024 کے عام انتخابات میں میچ فکسڈ ہونے کی صورت میں بی این پی کے حصے میں ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نسشت آئی۔ این اے 256 خضدار کی جس نشست پر سردار اختر مینگل نے اپنا استعفیٰ جمع کروایا ہے۔ اس نشست پر انہیں جتوانے میں جمعیت علمائے اسلام کے ووٹ بینک نے ایک اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ نیشنل پارٹی کے حصے میں چار صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست آئی حالانکہ عام انتخابات سے قبل نیشنل پارٹی کی قیادت انتہائی خوش فہمی میں مبتلا تھی لیکن الیکشن کے نتائج نے انہیں چونکا دیا بلکہ مقتدرہ نے دونوں جماعتوں کو خوب چونا لگایا۔ ایک ہفتہ تک شور شرابہ کرنے کے بعد جب انہیں پتہ چلا کہ اگر انہوں نے مزید چی گویرا بننے کی کوشش کی تو ان کی جیتی ہوئی نشستیں بھی ان سے چھین لی جائیں گی۔ اس لیے نیشنل پارٹی کے ارکان حلف لینے کے لیے سب سے پہلے اسمبلی ہال پہنچ گئے۔

گذشتہ پانچ سالوں کے دوران جو قومی خدمات بی این پی نے جس احسن طریقے سے سرانجام دی ہیں اب ان 'قومی خدمات' کو سرانجام دینے کی ذمہ داری نیشنل پارٹی نے لے لی ہے۔ نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی خیر جان بلوچ کی 6 ستمبر کی تقریب میں شرکت سرفراز بگٹی سے دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بی این پی نے قدوس بزنجو کا ماتھا چوما تھا جبکہ نیشنل پارٹی نے سرفراز بگٹی کو بوسا دیا ہے۔

گندے نظام میں رہتے ہوئے کسی سے انقلابی بننے کی توقع رکھنا عبث کے سوا کچھ نہیں۔ ایک طرف سردار اختر مینگل نے اپنا استعفیٰ دے دیا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنے مطالبات بھی پیش کر رہے ہیں جبکہ ان کی جماعت آئینی ترامیم کے سلسلے میں مذاکرات بھی کر رہی ہے۔ وہ حکام بالا کو یہ فارمولا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کس طرح اور کس طریقے سے دو ووٹوں کے عوض آپ دو ہزار لاپتہ افراد کو بازیاب کروا سکتے ہیں۔ اس طرح کا سنگین مذاق اپنے آپ سے کبھی کسی نے کیا ہے؟ ایک طرف آپ سسٹم پر لعنت بھیج رہے ہیں، اس پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اسے مینڈیٹ دے رہے ہیں اور اس کی حیثیت کو Legitimize بھی کر رہے ہیں۔

اختر مینگل نے استعفیٰ کے وقت اپنی پارٹی کے اعلیٰ عہدے داروں سے رجوع نہیں کیا لیکن پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے اختر مینگل کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اپنے دو سینیٹرز اور ایک رکن صوبائی اسمبلی کے استعفیٰ کا اختیار بھی سردار اختر مینگل کو دے دیا۔ اسی کا نام سیاست ہے۔