Get Alerts

گڈ سردار اور بیڈ سردار: کیا بلوچستان کے مسائل کی وجہ سرداری نظام ہے؟

گڈ سردار اور بیڈ سردار: کیا بلوچستان کے مسائل کی وجہ سرداری نظام ہے؟
ایک وقت تھا جب ہم نے روس کو شکست دینے کے لیے امریکہ کی امداد سے طالبان کی جہاد میں مکمل تعاون کیا اور افغانستان میں طالبان حکومت کا ساتھ دیا کیونکہ اس وقت طالبان اچھے تھے، پھر جب نائن ایلیون کے بعد امریکہ کو لگا کہ طالبان اچھے نہیں ہیں تو ہم نے پھر امریکہ کا ساتھ دیا اور کہا کہ طالبان گُڈ نہیں ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا مؤقف بدلتا گیا۔ سرکاری و ریاستی بیانیہ کے ساتھ ساتھ ہمارے مذہبی جماعتوں میں بھی گُڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تفریق واضح ہوتے گئی، آج ہم افغان جنگ میں امریکی اتحادی ہیں مگر ہماری مسجدوں میں ہر جمعہ کے خطبے میں افغان مجاہدین یعنی طالبان کے لیے دعا ہوتی ہے کہ اللہ ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں طاقت دے تاکہ افغان سر زمین پر اسلام کا بول بالا ہو۔

اسی طرح جب طالبان کی نیٹ ورک وسیع تر ہوا اور تحریک طالبان پاکستان منظر عام پر آئی تو ریاستی بیانیہ سمیت ملک کے مذہبی حلقے نے بھی ان کی مخالفت کرتے ہوئے انھیں بیڈ طالبان کہا اور 1973 کے آئین کو اسلامی آئین قرار دے دیا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت نافذ کرنے کی ضرورت نہیں۔

یہ گُڈ طالبان اور بیڈ طالبان کے ساتھ بلوچستان کے حوالے سے بھی ملکی میڈیا، ریاست اور دانشور طبقہ سمیت عام شہریوں میں گُڈ سردار اور بیڈ سردار کا نظریہ موجود ہے جو وقتاً فوقتاً سامنے آتا ہے۔ عام پاکستانی شہری، دانشور اور میڈیا ہمیشہ سے یہ بھی کہتا ہے کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کے سردار ہیں جو ترقی کے خلاف ہیں مگر ان سرداروں کے ساتھ تعلقات بھی بنا کے رکھنا چاہتے ہیں، وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ بلوچوں کی سرداروں سے جان چھوٹ جائے مگر اپنی طرف سے بلوچستان کی مہار ہمیشہ کسی سردار کے ہی سپرد کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی انقلاب اور تبدیلی کی بات لے کر ملکی سیاست میں آئی، نوجوانوں کو آگے لانے کی بات کی لیکن بلوچستان میں پارٹی کی قیادت ایک با اثر شخصیت سردار یار محمد رند کے ہاتھوں میں دی، جو اس وقت صوبائی وزیر تعلیم کے منصب پر فائض ہیں، یعنی ایک گُڈ سردار ہیں۔

مسلم لیگ نے آزادی کے وقت بھی بلوچستان کے سرداروں کو ترجیح دی، جو محمد علی جناح کے قریبی لوگوں میں رہے۔ اور آج تک کی تاریخ میں تمام وفاقی پارٹیوں کی بلوچستان میں قیادت کسی نہ کسی بااثر سردار کے ہی ہاتھ میں ہے جو بقول ان کے بلوچستان کے لیے بیڈ ہیں مگر ان کے اپنے لیے گُڈ۔ سردار اختر مینگل نے 2018 کے الیکشن میں حصہ لیا اور تبدیلی والی سرکار کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو وہ اس وقت ایک گُڈ سردار نکلے، باوجود اس کے کہ وہ ایک بیڈ سردار عطااللہ مینگل کے بیٹا ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کی ساری زندگی اور سیاست گُڈ سردار کی رہی لیکن ان کی موت ایک بیڈ سردار کی۔

اس وقت بلوچستان کے وزیراعلی پچھلی تین پشتوں سے صوبے میں مختلف ادوار میں حکمرانی کرنے والے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ایک بااثر قبائلی شخصیت ہیں، اداروں سمیت ملکی میڈیا کی نظر میں گُڈ سردار ہیں۔ نواب نوروز خان جنہیں قرآن مجید کے نام پر مذاکرات کے لیے بلایا گیا تھا اور ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی اور انھیں جیل میں موت دے دی گئی وہ بیڈ سردار تھے، نواب خیر بخش مری بھی آخری وقت تک بیڈ سردار رہے لیکن باقی بلوچستان کے تمام کے تمام سردار جو شروع ہی دن سے ریاست کے ساتھ رہے ہیں اور اب تک ساتھ ہیں، سارے گُڈ سردار ہیں۔ یعنی گُڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی طرح بلوچستان میں بھی اب گُڈ سردار اور بیڈ سردار کے منصوبے پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے۔

سردار بیڈ بھی ہیں اور ضرورت بھی، ان سے بلوچستان کو چھٹکارہ بھی دلانا ہے اور انہیں سربراہی بھی دینا ہے۔ یہاں تک کہ مکران کا علاقہ جہاں سرداری نظام کو شکست دیی جاچکی تھی، اب ہر چودہ اگست اور یوم پاکستان کے دن اچانک سے گُڈ سردار، گُڈ میر اور گُڈ بااثر شخصیات بڑے بڑے پوسٹروں پر آویزاں ہو کر نکل آتے ہیں۔ سردار جب تک خاموش ہے اور مقامی سطح پر غیر روایتی طریقوں سے سیاست پر قابض ہے، عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے بھی اپنے جرگوں سے فیصلے کروائے اور جلوس و ریلیاں نکالے تو گُڈ سردار ہے لیکن اگر ہٹ کر بولے تو بیڈ سردار۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالب علم ہیں۔