’لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ بہت بڑی حماقت ہے‘

’لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ بہت بڑی حماقت ہے‘
چین سے شروع ہونے والا وائرس پچھلے چند مہینوں سے پوری دنیا میں پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ اس سے جہاں لاکھوں افراد جسمانی طور پر متاثر ہوئے، وہاں دنیا کے بیشتر ممالک میں بلکہ یوں کہنا چاہیے تقریباً ساری دنیا میں معیشت کا پہیہ بھی رک سا گیا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ تیل کی ہے، جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے طلب کم اور رسد زیادہ کا شکار ہے۔ کہتے ہیں کہ اس وجہ سے کئی دہایوں کے بعد تیل کی قیمت کم ترین سطح پر ہے۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے بڑے کاروبار مثلاً ایئر لائنز، سیاحت وغیرہ بھی مکمل طور پر ٹھپ ہیں جبکہ چھوٹے کاروبار اس کے علاوہ ہیں۔

چھوٹے ممالک تو پہلے ہی معاشی طور پر تنگ دستی کا شکار تھے اس آفت کے بعد مکمل طور پر ہل کر رہ گئے ہیں جبکہ بڑے ممالک مثلاً امریکہ، برطانیہ وغیرہ بھی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے میں مصروف ہیں۔

امریکہ میں ہی دو مہینے کے اندر لاکھوں افراد اس وبا کی وجہ سے کام ٹھپ ہونے کی وجہ سے بیروزگار ہو چکے ہیں اور حکومت سے امداد لینے پر مجبور ہیں۔ ہر طرف خوف کی فضا قائم ہے۔ امریکہ میں پچھلے ہفتہ سے کئی ریاستوں نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کرتے ہوئے کچھ کاروبار کھولنے کا اعلان کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی کہا کہ اخلاقی طور پر دوسروں کا احساس کرتے ہوئے چہروں پر ماسک لگائیں اور گھر سے باہر دوسرے لوگوں سے سماجی فاصلہ کم از کم چھ فٹ برقرار رکھیں۔ مگر یہاں پر جب سے لاک ڈاؤن میں نرمی ہوئی ہے وہاں ابھی بھی کچھ جاہل اور ضدی قسم کے لوگ موجود ہیں جو کسی قسم کی احتیاطی تدبیر پر عمل نہیں کر رہے۔

پاکستان کے مختلف صوبوں میں بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان ہوتے ہی لوگوں کی بازار جانے والی اکثریت نے ہر قسم کی احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلے کے مشورے کو ہوا میں اڑا دیا۔ عید قریب ہونے کی وجہ سے بغیر احتیاطی تدابیر پر عمل کرائے لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ بہت بڑی حماقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی معیشت کو چلانے کے لیے ایک ضروری امر ہے مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری پاکستانی عوام کی اکثریت اخلاقیات سے زیادہ ڈنڈے کی طاقت کو تسلیم کرتی ہے۔ اگر حکومت نے بروقت لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو نہ پایا تو خدانخواستہ صورتحال اتنی بگڑ سکتی ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔

ایک تو پہلے ہی ہم ترقی یافتہ کی بجائے ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں ہیں اور اوپر سے اگر کرونا وائرس بھی معاشرتی اور انتظامی بے احتیاطی کی وجہ سے ایک شخص سے دوسرے شخص میں پھیلنا شروع ہو گیا تو اس کے ہولناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں بحثیت عوام بھی سمجھداری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجمع لگانے اور مجمع میں جانے سے پرہیز کرنا ہو گا۔ اگر کسی مجبوری سے باہر جانا بھی ہو تو سماجی فاصلہ اور چہرہ ڈھانپنا ضروری ہے۔

پچھلے دنوں ایک مولوی صاحب کا بیان پڑھ رہا تھا جو اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مسجد میں آکر وضو کر کے نماز تراویح پڑھنی چاہئے کیونکہ ان کے وضو کرنے کی وجہ سے کرونا خودبخود ختم ہو جائے گا۔ اس بیان پر میں زیادہ تبصرہ نہیں کروں گا، بس اتنا ہی کہوں گا کہ کچھ خدا کا خوف کریں اور وبا کو روکنے کے لیے حکومت وقت سے تعاون کریں کیوں کہ حاکم کی اطاعت بھی اسلام میں ہی بتایا گیا ہے۔

آخر میں دیگر علمائے کرام سے کہنا چاہوں گا کہ آپ عوام کی مذہبی رہنمائی کرتے ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے مسجدوں میں رش لگا کر بے احتیاطی کرنے کی بجائے عوام کو وبا کی وجہ سے گھروں میں عبادت کی تلقین کریں۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کا فائدہ بھی معیشت کو اسی صورت میں ہو گا جب سب اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔