میڈیا کو اپنا دوست جانیں دشمن نہیں؛ خبر کو چھپانے کیلئے کڑی سنسر شپ سے باز آ جائیں

میڈیا کو اپنا دوست جانیں دشمن نہیں؛ خبر کو چھپانے کیلئے کڑی سنسر شپ سے باز آ جائیں
تمام جمہوری ممالک میں میڈیا کو مملکت کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔ میڈیا کا کام عوام تک آگاہی پہنچانا ہوتا ہے۔ میڈیا اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ ملک میں ہونے والے واقعات کی رپورٹنگ کرتا ہے۔ میڈیا ہی کے ذریعے عوام جانتی ہے کہ کیا ہونا چاہیے جو نہیں ہو رہا اور کیا ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔ بجا کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح اس میں بھی کچھ 'گھس بیٹھیے' ہوتے ہیں جو مالی فوائد کے عوض حکومت وقت کے ہر کام کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں قرار دیتے ہیں لیکن عوام کی اکثریت انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔

وطن عزیز کا آئین بھی میڈیا کو مکمل آزادی دیتا ہے کہ وہ کسی خوف اور دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مثبت رپورٹنگ کریں لیکن اگر اپنی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہاں ہر حکومت میڈیا سے شاکی نظر اتی ہے۔ ہماری ہر حکومت نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے لیکن اس کے نتائج حکمرانوں اور ملک و قوم کے حق میں نہیں نکلے۔ ہمارے حکمرانوں نے میڈیا کو ہمیشہ اپنا دشمن جانا ہے حالانکہ اگروہ میڈیا کی تنقید پر ٹھنڈے دل سے غور کر کے اپنی اصلاح کرتے تو آج وطن عزیز کی یہ حالت نہ ہوتی۔

اگر میڈیا کو آزادی سے کام کرنے دیا جاتا تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا، اپنے تین دریا بیچ کر دو ڈیم بنانے پر بھنگڑے نہ ڈالے جاتے، سیاچین اور کارگل کی رسوائی گلے نہ پڑتی، ملک میں لشکر، حزب اور سپاہ کے نام پر بننے والی جماعتوں کو کھل کھیلنے کہ اجازت نہ ملتی اور نہ ہی ہمارے 'مہربان' بار بار اپنے ہی ملک کو فتح کرتے۔

جیسا کہ اوپر کہا کہ ہر حکمران نے میڈیا کو اپنا دشمن جانا اور اس سے دشمن جیسا ہی سلوک کیا لیکن دو 'جمہوری' ادوار خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے تقریباً تمام قابل ذکر اخبارات پر پابندی لگائی اور اس کے مدیران سمیت صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو جیل کی سیر کرائی۔ واضح رہے کہ اس وقت صرف پی ٹی وی ہوتا تھا دیگر نجی چینلز نہیں ہوتے تھے۔ دوسرے موجودہ وزیراعظم عمران خان ہیں جنہیں میڈیا نے آسمان پر چڑھایا (جس کا وہ خود بھی اقرار کر چکے ہیں) لیکن آج انہیں وہی میڈیا اپنا دشمن لگ رہا ہے۔ جتنے صحافی موجودہ دور میں بے روزگار ہوئے ہیں شائد اس سے پہلے نہیں ہوئے۔ کئی چینلز بند کر دیے گئے، جو صحافی حکومت کی مدح سرائی نہیں کرتا وہ روزگار سے محروم ہوا لیکن سلام ہے ان مجاہدوں پر جنہوں نے اپنے قلم کا سودا نہیں کیا۔

اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے

دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے

طویل تمہید کے بعد اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب۔ آجکل جدید ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، خبر کو چھپانا ممکن نہیں رہا کیونکہ اب ہر قسم کے دباؤ سے آزاد اخبار اور ٹی وی بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ ویب سائٹس پر مل جاتے ہیں جو ہر لمحہ کی خبر عوام تک پہنچا رہے ہیں اور اسی لئے پسند بھی کئے جا رہے ہیں۔ کڑی پابندی کے اس دور میں عوام وہ حقائق جاننا چاہتے ہیں جو ان تک پہنچنے نہیں دیے جا رہے۔ 'نیا دور' بھی ایک ایسی ہی ویب سائٹ ہے جس نے بہت کم وقت میں عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ اس کے روح رواں معروف صحافی اور تجزیہ کار جناب رضا احمد رومی ہیں۔ رومی صاحب پاکستان اور امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں اور ایک مدت سے صحافت کے میدان مِیں بھی اپنا آپ منوا چکے ہیں۔

'نیا دور' لاہور کے صحافی نے ایک خبر بریک کی کہ حکومت پنجاب نے کرونا وائرس کے اوائل ایام میں نہ صرف اموات کو چھپایا بلکہ اب بھی پنجاب کے مختلف شہروں میں اس بیماری سے ہلاک شدگان کی اصل تعداد کو عوام سے خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ اس صحافی نے لاہور کے مختلف ہسپتالوں کے ڈاکٹرز سے یہ بات کنفرم کی اور وزیر صحت پنجاب اور ان کے ترجمان سے اس خبر سے متعلق ان کا مؤقف جاننے کیلئے وقت مانگا لیکن انہیں جواب ہی نہیں دیا گیا البتہ حکومت پنجاب کے ترجمان نے ایک بیان کے ذریعہ اس خبر کو غلط اور گمراہ کن قرار دیا لیکن کسی بھی فورم پر اسے چیلنج نہیں کیا۔

اگر اس نمائندے کی خبر غلط تھی تو صوبہ پنجاب کے حکام کو چاہیے تھا کہ نمائندے کو طلب کر کے اس سے اس خبر کی صداقت کے بارے میں پوچھتے۔ اگر نمائندے کی رپورٹ غلط تھی تو پیمرا سے رجوع کرتے، عدالت میں چیلنج کرتے، لیکن صرف ایک بیان کے ذریعہ خبر کو غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ خبر کو چھپانے کیلئے کڑی سنسر شپ سے باز آ جائیں کیونکہ جب خبر کو روکا جاتا ہے تو عوام افواہوں پر بھی یقین کرنے لگتے ہیں۔

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔