پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔
جیل میں ویڈیو لنک انتظامات مکمل کرکے کمرے میں سکرین نصب ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کردیا گیا ہے جبکہ نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست نہیں دکھائی جا رہی۔ عمران خان نے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہن رکھی ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا اٹارنی جنرل صاحب کیا ویڈیو لنک قائم ہوگیا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی ویڈیو لنک قائم ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے خواجہ حارث سے مکالمہ آپ آصل کیس میں وکیل تھے۔ آپ کے نہ آنے پرمایوسی تھی۔ ہم آپ کے مؤقف کوبھی سننا چاہیں گے، کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ اس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مجھے فیس نہیں چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تمام وکلا سے سینئر ہیں۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التوا ہے۔
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی بھی آپ کو سن سکیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست سماعت کے لیے منظور ہوئی؟ وکیل وفاقی حکومت نے بتایا کہ جی اسے قابل سماعت قراردے دیا گیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ وکیل نے بتایا کہ جی میں عدالت کی معاونت کروں گا۔
بعد ازاں عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترمیم کیس پر ہوئی سماعت کا حکم نامہ طلب کر لیا۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا جس کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے انٹراکورٹ اپیلیں دائر کیں جب کہ بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کیس میں خود پیش ہونے کی درخواست دی تھی۔ 14 مئی کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے قومی احتساب بیورو ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ ویڈیولنک پیش ہونے کی اجازت دی تھی۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
کیس کا پس منظٖر
سابق چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں ۔ وفاقی حکومت نے اس فیصلے کیخلاف پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اپیل دائر کی تھی ۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کیس کا مختصر فیصلہ سنایا گیا جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم میں سے اکثر کو آئین کے منافی قرار دے کر کالعدم کردیا۔
فیصلے کے چیدہ نکات
· عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال
· عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بحال
· نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے مقدمات بھی بحال
· ختم کیے گئے مقدمات ایک ہفتے کے اندر دوبارہ احتساب عدالتوں میں لگانے کا حکم
· نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت
· سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق برقرار
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی ہیں۔ فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق بحال رکھی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے۔ آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی۔ پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے ہیں۔
تحریری حکم نامہ
بعد ازاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ کا اکثریتی فیصلہ جاری کیا اور 55 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس نے خود تحریر کیا اور فیصلے میں 2 صفحات پر مشتمل جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریری حکم میں کہا کہ نیب ترمیمی سیکشن 3 اور سیکشن 4 سے متعلق کی گئی ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، عوامی عہدے رکھنے والوں کے حوالے سے نیب قانون پر لگائی گئی حد اور 50 کروڑ کی حد ترامیم کو کالعدم کیا جاتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں تاہم آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے اور ترامیم کی روشنی میں احتساب عدالتوں کی جانب سے دے گئے احکامات بھی کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب 7 دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کو بھیجے، اس کے ساتھ تمام تحقیقات اور انکوائریز بھی بحال کی جاتی ہیں اور وہی سے عمل شروع ہوگا جہاں پر اس سے ختم کردیا گیا تھا۔
تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ کرپشن اور بے ایمانی کی تعریف کے حوالے سے کی گئی ترمیم اور پہلی ترمیم کا سیکشن 8 بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے۔