ایک دور ہوا کرتا تھا جب لوگوں کے پاس اپنے آپ کو باخبر رکھنے کے لئے اخبار اور ریڈیو کے علاوہ کوئی ذریعہ نہ ہوتا تھا۔ چونکہ اخبار رات 2 بجے کے قریب چھپتا تھا اس لئے کسی خبر کوروکنا اور اخبار کو کنٹرول کرنا آسان تھا اور کافی ٹائم ہوتا تھا۔ اس دوران اگر صحافی کسی خبر کے چھپنے کے لئے کوئی تگ و دو کرتا بھی تو بے سود کیونکہ ریاستی اشرافیہ اخبار کے مالک کو کنٹرول کرتی یا ساتھ ملا لیتی اور یوں خوشی خوشی دونوں کا کاروبار چلتا تھا۔ باقی خبر کی تلاش میں سرگرداں صحافی اور عوام اپنا کام جانیں۔
پھر ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور میڈیا انڈسٹری میں ایک انقلاب آیا جو پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی صورت میں تھا۔ چونکہ سیٹلائٹ ٹی وی پر خرچہ کروڑوں روپے آتا تھا اس لئے جائز و ناجائز طریقوں سے پیسہ کمانے والے سرمایہ دار اس طرف متوجہ ہوئے۔ اس میں ایک طرف تو اشتہارات کی صورت میں اربوں روپے کمانے کا امکان تھا تو دوسری طرف حکومت اور ریاست میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کا بھی اضافی فائدہ تھا۔ ان سرمایہ کاروں نے اپنے کالے دھن کو سفید کرنے اور اپنی باقی بزنس ایمپائرز کے لئے ٹیکسز میں کمی اور ٹیکس چھوٹ حاصل کرنے کے لئے میڈیا میں سرمایہ کاری کی۔ انہیں صحافت اور عوامی یا ریاستی مفادات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
اس دوران اخبار کی نسبت زیادہ آزادی تھی کیونکہ ریموٹ ناظرین کے ہاتھ میں آیا اور وہ بٹن سے چینل تبدیل کر سکتے تھے۔ چینل تبدیلی سے متعلقہ چینل کی ریٹنگ کم ہوتی اور نتیجتاً اس کے اشتہار میں کمی ہوتی تھی اور ساتھ ساتھ حکمران اشرافیہ کے لئے اس کی اہمیت بھی کم ہوتی تھی کیونکہ اشرافیہ نے پروپیگنڈا اسی چینل سے کرنا تھا جس کی ویورشپ زیادہ ہو۔
اب نیوز رپورٹر اگر جان پر کھیل کر کوئی خبر دیتا تو اسے یہ کہہ کر خبر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی تھی کہ یہ ہمارے چینل کی پالیسی کے خلاف ہے۔ چینل پالیسی کچھ اور نہیں بلکہ چینل مالک اور حکمران اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کرنے کی پالیسی تھی۔ یوں ایک اور مرتبہ رپورٹر اور ویور حکمران اشرافیہ کے رحم و کرم پر رہ گیا۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
پھر کیا ہوا، سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کا زمانہ آ گیا جس نے روایتی کنٹرولڈ میڈیا کے پرخچے اڑا دیے۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی میڈیا آخری سانسیں لے رہا ہے۔ سوشل میڈیا میں انقلاب لانے کی سکت ہے بشرطیکہ اس کے صارفین باشعور ہوں۔
2018 سے چند سال پہلے میڈیا کے اندر مختلف کیمپس بننے لگے جن میں کچھ لوگ عمران خان کے حق میں اور کچھ ان کے خلاف بولنے لگے۔ یوں سوشل میڈیا نے ہمیں جو آزادی دی وہ ہم سے ہضم نہ ہو سکی اور اب ایک اور بار ہماری آزادی اور صحافت ہمارے تعصبات کی نذر ہو گئی۔
اب اگر آپ کو لگے کہ مین اسٹریم میڈیا کنٹرولڈ ہے تو آپ یوٹیوب پر جا کر اپنی مرضی سے کسی غیر جانبدار صحافی کو دیکھیں۔ لیکن یہ نہ کریں کہ اگر آپ ن لیگ کے سپورٹر ہو اور کسی یوٹیوبر صحافی نے ن لیگ پر تنقید کی تو آپ انہیں مکمل سنے اور سمجھے بغیر یوتھیا کہنا شروع کر دیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص عمران خان پر تنقید کرے تو اس کو مکمل سمجھے بغیر آپ پٹواری قرار دے دیں یا گالیاں دینا شروع کر دیں۔ مختلف پارٹیز کے پروپیگنڈے کا شکار یوتھ یہی کرتا ہے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ میڈیا یا سوشل میڈیا آپ کو وہی دکھائے گا جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کو بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا میں رائے عامہ بنانے میں اختیار صرف صحافی کے پاس ہے، غلط ہے۔ اس میں ویورز کا صحافیوں سے زیادہ اہم کردار ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان سے اپنی مرضی کا پروپیگنڈا سنتے ہیں یا اپنے مزاج اور سوچ کے برعکس حقیقت سنتے ہیں، فیصلہ آپ خود کریں۔
اس لئے یوٹیوب یا سوشل میڈیا پر مخالف نظریات کے حامل لوگوں کو گالیاں دینے کے بجائے اس میں سچ ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔
سوشل میڈیا کو بھی دھمکیوں اور بلیک میلنگ سے کنٹرول کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اس میں روایتی میڈیا کے برعکس کافی آزادی ہے۔ اس لئے اس آزادی کی حفاظت خود کریں اور ذمہ دار شہریوں کی طرح اسے استعمال کریں۔ غیر ذمہ دارانہ رویے اور گالم گلوچ سے گریز کریں اور ارباب اختیار کو یہ موقع ہرگز نہ دیں کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا پر پابندی لگائے۔