ایک زمانہ تھا جب لوگوں کے پاس خبریں پڑھنے کا ذریعہ صرف ریڈیو اور اخبار ہوتا تھا۔ پھر ٹیلی ویژن آ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بڑے سے بڑے جھوٹ کو بھی اگر اخبار سے گزارا جائے اور ٹی وی سے نشر کیا جائے تو لوگ اسے سچ مانتے ہیں اور یہی حقیقت بھی ہے۔ اس سے یہ ہوا کہ خبروں پر جاگیرداری صرف نیوز چینلز اور اخبارت کی ہوتی تھی۔ یوں بڑے بڑے کاروباری حضرات اپنی بلیک منی کو واٸٹ کرنے اور حکومت سے اپنے لئے مختلف رعایتیں لینے کی وجہ سے 'میڈیا' کے سود مند کاروبار میں آ گئے۔ ان ارب پتیوں کا صحافت سے کوٸی لینا دینا نہیں تھا، نا اب ہے لیکن وہ اپنے مفادات کی خاطر اس شعبے میں سرمایہ کاری پر مجبور ہو گئے۔
آمرانہ خطوط پر استوار اور آمرانہ رویے رکھنے والی ریاستوں کے طاقتور لوگوں نے بھی ان ارب پتیوں کی کمزوریوں کو جان کر میڈیا کو اپنے مقاصد اور پروپیگنڈے کے لئے خوب استعمال کیا۔ صحافت اور ملک و قوم کے خدمت کا جذبہ ورکنگ صحافیوں اور رپورٹرز کا مسئلہ تھا اور ہے۔ ان میں سے اگر کوٸی ان طاقتور حلقوں سے اختلاف کرتا یا کوٸی ایسی خبر دیتا ہے جو ادارہ جاتی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے بھلے وہ ملکی مفاد میں ہو یا کم ازکم نیک نیتی سے دی گئی ہو، پہلے تو ان کو شرافت کے ساتھ منع کر دیا جاتا ہے۔ اگر پھر بھی کوٸی ڈھیٹ رپورٹر باز نہیں آتا تو اسے نوکری سے نکال دیتے ہیں اور اگر اس سے بھی بات نہ بنتی نظر آئے تو انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ کم ازکم پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
اسی طرح ٹیلی ویژن یا اخبار سے دی جانے والی خبریں صرف یک طرفہ طور پر نشر کی جاتی تھیں اور پڑھنے یا دیکھنے والوں کے پاس ردعمل دینے کا اور کوٸی راستہ نہیں تھا۔ لیکن وقت گزرتا گیا اور سوشل میڈیا آ گیا۔ سوشل میڈیا نے خبروں پر مین سٹریم میڈیا کی جاگیرداری ختم کر دی۔ اس طرح شخصی آزادیوں کو ایک نٸی مہمیز ملی۔ اب خبروں پر مین سٹریم میڈیا کی جاگیرداری ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔ رپورٹرز کی خبر اگر ٹی وی پر نہیں چلتی یا اخبار میں نہیں چھپتی تو ان کے پاس ایک نیا پلیٹ فارم آ گیا جہاں وہ لوگوں کو حقاٸق سے آگاہ کرتے ہیں۔
اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر غیر پروفیشنل لوگوں کا قبضہ ہے اور ان کی وجہ سے پروفیشنل لوگ بھی ان پلیٹ فارمز پر آنے سے کتراتے ہیں۔ خبروں کو روکنے کے روایتی طریقوں سے تو آپ سب واقف ہوں گے لیکن اس کا جدید طریقہ یہی ہے کہ اتنی مس انفاریشن یا ڈس انفارمیشن پھیلائی جائے جس میں سے ایک عام قاری یا دیکھنے والے کے لئے سچ تلاش کرنا مشکل ہو جائے اور وہ تھک کر سچ جاننے کی کوشش ہی ترک کر دے۔ شاید یہی وجہ ہے جو ریاست پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک حکمران ان جدید پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ نہیں کرتے۔
ہم نے جو صحافت کتابوں میں پڑھی تھی وہ ہمیں عملی طور پر دیکھنے کو نہیں ملی لیکن میں مایوس نہیں ہوں۔ سوشل میڈیا ہمیں مین سٹریم میڈیا میں نہ ہونے کی وجہ سے کمزور نہیں بلکہ مزید طاقتور بناتا ہے۔ سچ کو نہ تو دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی زیادہ دیر کے لئے چھپایا جا سکتا ہے بلکہ سامنے آ ہی جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا میں سے جیت سوشل میڈیا کی ہی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سوشل میڈیا یہ جنگ جیت چکا ہے۔