شہید محترمہ بےنظیر بھٹو اپنے خلاف حکومت کی طرف سے دائر کم از کم نصف درجن احتساب ریفرنسوں کی زد میں تھیں جن میں سے زیادہ تر لاہور ہائی کورٹ کے دو، دو ججوں پر مشتمل خصوصی احتساب بنچوں میں زیر سماعت تھے۔ انہی دنوں ایک مقدمے میں بے نظیر بھٹو کو ضمانت قبل از گرفتاری درکار تھی، چیف جسٹس راشد عزیز نے ان کی درخواست سماعت کے لئے ایک سنگل بینچ میں فکس کر دی۔
اعلیٰ عدلیہ کی رپورٹنگ کے حوالے سے اپنی ڈیوٹی کرتے ہوئے اس وقت میں خود کمرہ عدالت میں موجود تھا۔ یہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک سینئر جج جسٹس خلیل الرحمان رمدے کی عدالت تھی جو بڑے کروفر کے ساتھ اپنی عدالت چلاتے تھے، ان کا دبدبہ اور ہیبت زبان زد عام تھے۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایک سخت گیر جج کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے والد جسٹس چوہدری صدّیق بھی جسٹس ملک قیوم کے والد جسٹس اکرم کی طرح لاہور ہائی کورٹ ہی کے جج کے طور پر ان 5 ججوں کے بنچ میں شامل رہے تھے جس نے بطور ٹرائل کورٹ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم اور بےنظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔
ضمانت کے لئے چونکہ درخواست گزار ملزم کا قانون کے آگے سرنڈر کرنا، یعنی خود پیش ہونا لازمی تھا لہٰذا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پیشی بعد دوپہر "لیٹ آورز" میں رکھی گئی تاھم اس کے باوجود کمرہ عدالت کھچا کھچ بھر ہوا تھا۔ لطیف کھوسہ درخواست گزار کے وکیل کے طور پر بےنظیر کے ساتھ پیش ہوئے اور سماعت ختم ہونے کے بعد بےنظیر کو لاہور ہائی کورٹ بار کی دعوت پر بار کمپلیکس میں چائے پلائی گئی جہاں اچھا خاصا شو ہو گیا کیوں کہ پیپلز لائرز فورم سے وابستہ پیپلز پارٹی کے حامی وکلا کے علاوہ "جیالوں" کی بڑی تعداد ہائی کورٹ پہنچی ہوئی تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایسا جذباتی ماحول ہو اور اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ بار کا احاطہ فلک شگاف نعروں سے نہ گونجے۔ اگلے روز روٹین میں راقم ایک بار پھر جسٹس رمدے کے کمرہ عدالت میں موجود تھا۔ کسی مقدمے میں لطیف کھوسہ کا بیٹا خرم لطیف کھوسہ یا شائد لطیف کھوسہ کا کوئی جونیئر پیروی کے لئے پیش ہوا تو جسٹس رمدے نے پچھلے روز کے "سین" پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے اپنی بھڑاس نکالنا شروع کر دی اور ریمارکس دیے کہ ’’اس وقت لطیف کھوسہ کی غیرت کہاں چلی گئی تھی جب کل یہاں ہلّڑ بازی ہو رہی تھی اور بےنظیر بھٹو کو چائے پلائی جا رہی تھی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
یہ بات اسی روز وکلا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ جسٹس رمدے نے سردار لطیف کھوسہ جیسے بار کے سینئر رکن کو بھری عدالت میں ’بے غیرت‘ کہا ھے۔ لطیف کھوسہ بار کی سیاست میں بھی اہم کردار رکھتے اور وکلا کے ایک بڑے دھڑے کی قیادت کرتے تھے۔ اگلی صبح لاہور ہائی کورٹ کے کیانی ہال میں بار کا ہنگامہ خیز اجلاس ہو رہا تھا جس میں بار کے عہدیداروں اور پی ایل ایف (پیپلز لائرز فورم) سے تعلّق رکھنے والے بعض ’جیالے‘ وکلاء نے جسٹس رمدے سمیت لاہور ہائی کورٹ کے بعض ججوں کا نام لے کر، اور ان کے مبینہ پروفیشنل مس کنڈکٹ کی مثالیں دیتے ہوئے ان کے خلاف دھواں دار تقریریں کیں، نعرے بازی کی اور جسٹس رمدے کے خلاف قرداد منظور کی، جس میں انہیں فوری طور پر کام کرنے سے روک دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی اگلے چند روز میں جسٹس رمدے کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام میں ریفرنس بھی دائر کر دیا گیا۔
صرف یہی نہیں، اسی شام مال پر لاہور ہائی کورٹ کے باہر سول سوسائٹی کا ایک احتجاجی مظاہرہ بھی ہو رہا تھا جس میں این جی اوز اور خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی جن کے ہاتھوں میں تھامے کتبوں پر جلی حروف میں اس طرح کے نعرے درج تھے ’?IS RAMDAY MAD‘
اسی نعرے والے کتبے کو فوکس کرتے ہوئے لی گئی ایک تصویر کو ہفت روزہ امریکی TIME میگزین نے اپنا سرورق بنا لیا۔
تاہم، جسٹس رمدے سپریم کورٹ تک پہنچے اور اپنی عمر کی حد یعنی اپنی میعاد عہدہ پوری کر کے ریٹائر ہوئے، جبکہ اس دوران فل کورٹ کی سربراہی کرتے ہوئے ملک پر برسراقتدار باوردی فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ہٹا دیے گئے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے علاوہ، جنرل مشرف کی جگہ لینے والے اپنے بد ترین مخالف آصف زرداری کے دور میں بھی نہایت اھم مقدمات کے فیصلوں میں شریک رہے اور پیپلز پارٹی کا دور بھگتا کر ’نارمل‘ انداز میں عدلیہ سے رخصت ہوئے، حالانکہ جسٹس رمدے کا کنڈکٹ بطور جج ان کے پورے کریئر میں متنازع رہا، یہاں تک کہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے دو ماہ بعد 31 دسمبر 1999 کو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے دوبارہ حلف لینے کا حکم جاری کیا گیا تو جسٹس رمدے کو نہیں بلایا گیا اور اگلی صبح لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس راشد عزیز کے چیمبر میں عدالت عالیہ کے ججوں کا جو ہنگامی اجلاس ہوا، اس میں شریک ہونے کی بجائے جسٹس رمدے اپنے چیمبر میں بیٹھے رہے۔
جسٹس فلک شیر نے مجھے خود بتایا تھا کہ وہ جسٹس رمدے کو منا کر اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر گورنر ہاؤس لے کر گئے جہاں جسٹس رمدے کے لئے ہنگامی طور پر ایکسٹرا کرسی لگوائی گئی۔
اسی جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غدّاری کیس کے فیصلے میں اپنے حکم کے پیرا 66 کی بنا پر مس کنڈکٹ کے ’ملزم‘ جج بارے پشاور کے محمد سلیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں:
’’چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جناب وقار سیٹھ سے میری پہلی ملاقات جون 1999 میں ہوئی۔ میں نے اس وقت نئی نئی وکالت شروع کی تھی اور اس شعبے میں میرے پہلے استادِ محترم جناب اعجاز یونس شاہ صاحب تھے جن کا دفتر خیبر بازار میں واقع پیر بخش بلڈنگ میں پہلی منزل پر تھا۔ وقار سیٹھ کا دفتر بھی اسی بلڈنگ میں تھا۔ میں جب پہلی بار سیٹھ صاحب کے دفتر میں داخل ہوا تو کارل مارکس، لینن اور ٹراٹسکی کی بڑی بڑی تصاویر دیواروں پر آویزاں دیکھ کر حیران رہ گیا اور حیرانگی کی وجہ یہ تھی کہ یہ وہ دور تھا جب مارکسزم کا نظریہ ’آؤٹ آف فیشن‘ ہو چکا تھا۔ اور پشتونوں کے بڑے بڑے مارکسسٹ، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مارکسزم سے دم دبا کر پشتون نیشنلسٹ پارٹیوں اور این جی اوز میں پناہ لے چکے تھے اور نئے نئے مشرف با مارکیٹ اکانومی اور لبرلزم ہو چکے تھے! اور یہ مارکسزم سے ہمدردی رکھنے والے ہم جیسے نوجوانوں کے لئے لمحۂ فکریہ تھا۔ ایسے وقت میں جب مارکسزم کا نظریہ ’آؤٹ آف فیشن‘ ہوچکا تھا کسی کے دفتر میں ان تصاویر کے ذریعے اس نظریے سے وابستگی اور وفاداری کا اظہار مجھے بہت اچھا لگا۔
’’سیٹھ صاحب نام کو تو سیٹھ تھے لیکن ان کی چھوٹی سی پرانی اور خستہ حال سوزوکی آلٹو دیکھ کر یقیناً کوئی بھی انہیں سیٹھ سمجھنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن طبیعت سے وہ یقیناً سیٹھ تھے۔ وقار، شائستگی اور ملنساری ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ سیٹھ صاحب کم گو انسان تھے۔ غیر ضروری باتوں سے اجتناب اور انتہائی نپے تلے انداز میں گفتگو کیا کرتے تھے۔
’’ایک قابل وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قانونی اخلاقیات کے چلتے پھرتے مجسم تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وکلا اور جج صاحبان میں ان کی بے پناہ قدر تھی۔ وہ کبھی بھی کوئی ایسا کیس قبول نہیں کیا کرتے تھے جو ان کی رائے میں نہیں بنتا تھا۔ 2005-2001 تک میں پشاور یونیورسٹی کا لیگل ایڈوائزر رہا۔ میں نے کئی بڑے بڑے writ petition cases ان کے پاس بھیجے اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کی پیروی کریں لیکن وہ انہیں مطالعے کے بعد یہ کہہ کر واپس کر دیا کرتے تھے کہ پہلے ہم نے پہلے available remedy exhaust کرنی ہے۔ اور اس طرح وہ ایک یقینی فیس ٹھکرا دیا کرتے تھے! اگر ان کی نظر میں کوئی کیس نہیں بنتا تھا تو آپ ان کی قانونی خدمات کسی بھی صورت میں اور کسی بھی قیمت پر نہیں خرید سکتے تھے۔ وہ بہت سے وکلاء صاحبان کی طرح برائے فروخت نہیں تھے۔ لیکن اگر وہ کوئی صحیح کیس قبول بھی کر لیتے تو ہمارا جھگڑا اس پر ہوا کرتا تھا کہ وہ کم از کم مناسب فیس ضرور قبول کریں لیکن وہ مناسب سے بھی کم فیس لینے پر اسرار کیا کرتے تھے۔ شاید یہی ان کی سینئر وکیل ہونے کے باوجود محض برائے نام سیٹھ ہونے کی وجہ تھی۔
’’آنے والے سالوں میں جس کسی نے بھی اپنے ذاتی کیس کی پیروی کے لئے یا کسی شاگرد نے internship کے لئے مجھ سے کسی وکیل کی recommendation مانگی میرے لبوں پر سیٹھ صاحب کا نام سب سے پہلے آیا کرتا تھا۔
’’یہ وقار سیٹھ صاحب کی سالوں پر مشتمل ایمانداری اور قانونی اخلاقیات کی پیروی کا (اور شاید ان کے صحیح معنوں میں کامریڈ ہونے کا) نتیجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسے فیصلے لکھے جو کسی اور کو لکھنے کی جرات کبھی نصیب نہیں ہوئی۔
’’مشرف کو سزائے موت دینے کا فیصلہ تو سب کو معلوم ہے لیکن ان کا سب سے جراتمندانہ فیصلہ ملٹری کورٹس کی جانب سے دیی گئی 72 کے قریب سزائے موت اور عمر قید کی سزاؤں کو معطل کرنا تھا۔ اس فیصلے میں پہلی بار کسی عدالت میں فوج کے انٹرنمنٹ سینٹروں میں ہونے والے بہیمانہ تشدد اور ظلم کی داستانوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں الزام لگایا کہ اس نے بیک وقت پولیس، استغاثہ، دفاع، جج اور سزا دینے والوں کا کام اپنے ہاتھوں میں لے کر قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑائی تھیں۔
’’مجھے اس پر بہت فخر ہے کہ پشتونخوا کی زمین ہی ایسے جراتمند جج صاحبان کو پیدا کر سکی ہے۔ خدا انہیں اداروں کے شر سے محفوظ رکھے۔‘‘