پشاور میں جسٹس وقار سیٹھ کے حق میں ریلی

ایک ایسے وقت میں جب خصوصی عدالت سے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا فیصلہ آیا اور ملک کے بڑے شہروں کی شاہراؤں پر مجرم کے حق میں اور عدلیہ کے خلاف بینرز لگائے جا رہے ہیں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے فیصلہ لکھنے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے حق میں ریلی نکالی ہے۔


پشاور میں نکالی گئی اس ریلی میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کیا گیا جبکہ سابق فوجی حکمران کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔

https://twitter.com/HamidMandokhail/status/1209052571626852358?s=20

ریلی میں چند درجن افراد نے شرکت کی اور شرکا پرجوش دکھائی دیے کہ ملک میں آئین و قانون کی فتح ہوئی ہے۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے پشاور میں عدلیہ کی حمایت میں نکالی گئی اس ریلی کو رپورٹ نہیں کیا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ ملک میں سیاسی و قانونی بحث کا محور بنا ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ اس تفصیلی فیصلے کا پیراگراف نمبر 66 ہے۔


19 دسمبر کو آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کے پیراگراف 66 میں بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔

اس کے نتیجے میں ملک میں اپنی نوعیت کے اس پہلے مقدمہ کے فیصلے پر ہونے والی بحث میں صرف پیراگراف 66 کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔

تاہم جسٹس وقار سیٹھ نے اس سے اگلے پیرگراف 67 میں اپنے اس حکم کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا ہے۔ اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عملدرآمد ہو گا یا نہیں اور کیسے۔

تاہم جہاں سوشل میڈیا پر تفصیلی فیصلے کے پیراگراف 66 کو وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا لیکن پیراگراف نمبر 67 میں دی گئی توجیہ کو اس کے ساتھ جوڑ کر کم ہی پیش کیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کئی لوگ اب تک اس فیصلے میں موجود دیگر اہم نکات سے آگاہ نہیں یا جن پر شاید اتنی بات نہیں ہو رہی۔

وقار احمد سیٹھ کون ہیں؟


چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک متوسط کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن انھوں نے اپنی تعلیم پشاور کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی ہے۔

انھوں نے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کی اور لا کالج پشاور یونیورسٹی سے پہلے قانون کی ڈگری حاصل کی اور پھر پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے 1985 میں عملی وکالت کا آغاز کیا۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ 1990 میں ہائی کورٹ اور پھر 2008 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ انھیں 2011 میں ایڈیشنل سیشن جج تعینات کیا گیا اور اس کے بعد وہ بینکنگ کورٹس سمیت مختلف عدالتوں میں تعینات رہے۔

وقار احمد سیٹھ نے 2018 میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے عہدے کا حلف لیا۔

ان کے والد سیٹھ عبدالواحد سینیئر سیشن جج ریٹائرڈ ہوئے جبکہ ان کے نانا خدا بخش پاکستان بننے سے پہلے 1929 میں بننے والی صوبے کی پہلی اعلیٰ عدالت میں جج رہے تھے۔

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے علاوہ اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا تعلق بھی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو سزا سنائی تھی۔

اس کے علاوہ جسٹس مظہر عالم، میاں خیل، سابق جسٹس داؤد اور سابق جسٹس یونس تھیم کا تعلق بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔

لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ، قاضی انور ایڈووکیٹ کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے اور ابتدا سے ہی روشن خیال انسان ہیں۔‘

’انھوں نے لیبر لاز اور سروس لاز میں مہارت حاصل کی اور ساتھ ساتھ سول اور کریمنل کیسز بھی کرتے تھے۔‘

لطیف آفریدی کے مطابق ’جسٹس وقار احمد سیٹھ اپنی محنت سے اس مقام پر پہنچے ہیں اور ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایسے افراد کے مقدمات کی طرف زیادہ توجہ دی ہے جو مالی حیثیت نہیں رکھتے یا ایسے مقدمات کو ترجیح دیتے رہے جن مقدمات میں عام طور پر عدالتوں میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔‘

یاد رہے جسٹس وقار احمد نے سابق چیف جسٹس دوست محمد خان کے پشاور ہائی کورٹ میں قائم انسانی حقوق سیل کو بحال کر دیا تھا۔ اس سیل میں کسی بھی درخواست پر فوری طور پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور سائل کو کوئی اخراجات بھی برداشت نہیں کرنے پڑتے۔