صحافت یا مارکیٹنگ: 35 سالہ تجربے کے بعد کامران خان کو اب ایک شعبہ چننا ہوگا

صحافت یا مارکیٹنگ: 35 سالہ تجربے کے بعد کامران خان کو اب ایک شعبہ چننا ہوگا
پاکستان کا پرائیویٹ نام نہاد آزاد میڈیا لگ بھگ اٹھارہ، انیس برس کی عمر کا ہے۔ یہاں پر کہنے کو تو صحافی کام کرتے ہیں اور ہر صحافی کی ایک عزت اور اہمیت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا میں واضح طبقات ہیں۔ ایک طرف ورکر صحافی ہیں۔ جو معمولی تنخواہوں پر کام کرتے ہیں۔ جن اداروں میں وہ کام کرتے ہیں وہاں بھی وہ دوسرے یا تیسرے درجے کے ملازمین ہوتے ہیں۔ کئی اداروں میں ان کے لئے مخصوص قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ وہ دن رات کام کرتے ہیں اور ٹی وی کی سکرین کو دھوپ، گرمی، سردی اور بارش کی پروا کیے بغیر خبروں اور براہ راست مناظر سے مزین کرتے ہیں۔ انہی چینلز میں جو ٹیکنکل سٹاف کام کرتا ہے، وہ صحافی نہیں شمار کیا جاتا۔ اور اکثر ان کا تعلق تیسرے اور چوتھے درجے کے طبقے سے ہوتا ہے۔
ان سب میں ایک طبقہ ایسا ہے جو اول درجے کے ملازم کہلاتے ہیں اور یہ ہیں اینکرز۔ یہ اینکرز چینل میں سب کچھ ہوتے پیں۔ اکثر کسی قسم کا قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا۔ اس مخلوق کا چینل کے مالکان کے ساتھ براہ راست رابطہ ہوتا ہے اور اکثر ان کے مفادات کے لئے یہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں اور بدلے میں لمبی تنخواہیں اور مراعات پاتے ہیں۔
میڈٰیا میں درجہ اول کے ان خدمت گاروں کی خدمات ہی تھیں جو کہ سلیکٹرز نے اپنی پسند کی حکومت لانے کے لئے استعمال کیں۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ یہ میڈیا ہی تھا ( اینکرز اور مالکان) جنہوں نے انہیں بنایا۔ لیکن یہ خوب رہی کہ جیسے ہی یہ حکومت اقتدار میں آئی، میڈیا کی کمبختی شروع ہوئی۔ اپنی مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنے کے لئے عمران حکومت کی پراپیگنڈا مشینری نے پہلے میڈٰیا اور اینکرز کے وجود کو متنازع بنایا۔ اس کے بعد اس تنازعے پر ہر اس اینکر کی تصویر بطور مثال لگا کر پراپیگنڈا کیا جو ان کی مرضی کے خلاف خبر یا تجزیہ پیش کر رہے تھے۔
اس مہم میں ایسے تمام اینکرز کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے جنہوں نے اس دباؤ میں آنے سے انکار کرتے ہوئے حقائق کی بنیاد پر بات جاری رکھی۔ اس نئی حقیقت کو اکثر صحافی اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ یہ پاکستانی میڈیا کے لئے ابتلا کا دور ہے۔ تاہم، اس پر ایک زاویہ یہ ہے کہ یہ میڈیا کے اس حصے پر ابتلا کا دور ہے جو جارحانہ حکومتی دباؤ میں آنے سے انکار کر رہے ہیں جیسا کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری سے لے کر طلعت حسین، مرتضیٰ سولنگی، ڈاکٹر دانش، مطیع اللہ جان اور ںصرت جاوید کے پروگراموں کی بندش تک عام مثالیں موجود ہیں۔ گاہے گاہے نجم سیٹھی کا پروگرام بھی بند کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے ایک طرح سے ان اینکرز کو بھی بے نقاب کیا ہے جن کی تمام تر عقیدت اور لگاؤ صحافتی اصولوں کی بجائے طاقتور حلقوں کو خوش کرنا تھا۔ اور اس سے قبل وہ کسی نہ کسی پردے کے پیچھے چھپے جمہوری حکومتوں اور عمل کو سبوتاژ کرتے رہے۔
اب کامران خان کا گذشتہ روز عمران خان کے ساتھ کیا گیا انٹرویو ہی دیکھ لیجئے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے خوشامد سے لبریز رویہ جاری رکھا اور وہ تمام حرکات کیں جو کوئی آزاد انٹرویو میں نہیں کرتا۔
کامران خان کے اس انٹرویو کا ایک کلپ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں تاثر یہ جا رہے کہ جیسے وہ انٹریو دے رہے ہیں اور وزیر اعظم ان کا انٹرویو لے رہے ہیں۔ اس کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کامران خان وزیر اعظم کو باور کرا رہے ہیں کہ ان کی حکومت کیسے بہترین انداز میں کام کر رہی ہے اور کیا کیا اہم کامیابیاں وزیر اعظم نے حاصل کر لی ہیں۔ اور صورتحال کو مزید مضحکہ خیز وزیر اعظم کا خاموشی سے کامران خان کو سننا بنا رہا ہے۔
اس پر سوشل میڈیا صارفین نے کامران خان اور عمران خان کے اس انٹرویو پر طنز بھی کیا ہے، تنقید اور افسوس بھی۔ ایک صارف نے لکھا کہ عمران خان صحافی کامران خان کی کارکردگی سے انتہائی خوش۔ کابینہ اجلاس میں وزرا کو جھاڑ پلا دی اور وزرا کو ہدایت کی کہ وہ کامران خان کا انٹرویو بار بار دیکھیں اور اس سے چاپلوسی سیکھیں۔
اسی طرح ایک اور صارف نے لکھا کہ کامران خان پاکستان کے وزیراعظم کو انٹرویو دیتے ہوئے۔ عمران خان نے انتہائی سخت اور مشکل سوالات پوچھے تھے مگر کامران خان نے مدلل جواب دیے۔ یہ ہوتا ہے صحافی، ایسا ہوتا ہے اینکر (نئے پاکستان میں)۔
گو کہ سوشل میڈیا صارفین کے لئے بھی کامران خان کی جانب سے یہ سب کیا جانا نیا نہیں لیکن اس کا ذکر کرنا اہم ہے کہ موصوف گذشتہ دو سالوں سے اپنے پرسنل سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور اپنے پروگرام کے ذریعے حکومت اور اسٹیبلمشنٹ کے لئے PR agent کا کام کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں جب عوام کے لئے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے، لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے کامران خان روز سب اچھا اور پاکستانی معیشت اور عوام کی بہترین حالت کی رپورٹ دیتے ہیں۔
حتیٰ کہ انہوں نے خود اپنی صحافتی بد دیانتی کا اعتراف کیا تھا کہ وہ عثمان بزدار کا فرینڈلی انٹرویو کرنا چاہتے تھے جس کے لئے انہوں نے سوالات بھی بھیج دیے لیکن بزدار پھر بھی نہ آئے۔ اس موقع پر ملک کی خفیہ ایجنیسوں کے سابق سربراہان اور افسران کی جانب سے ان پر یہ الزام بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 1980 کی دہائی کے اواخر میں کامران خان پیسوں کے عوض خفیہ ایجنسیوں کو خبریں بیچتے رہے۔
مزید یہ کہ ناظرین کو صحافتی اصولوں کی پاسداری کا اندازہ کرنے کے لئے طلعت حسین کا وہ کلپ بھی یاد رکھنا چاہیے جس میں وہ آج سے دس سال قبل میاں نواز شریف کا انٹرویو کر رہے تھے اور احسن اقبال نے اپنے پارٹی قائد کی مدد کے لئے لقمے دینے کی کوشش کی جس کا نہ صرف انہوں نے انتہائی برا مانا تھا بلکہ سوشل میڈیا پر یہ کلپ بھی وائرل کر دیا گیا تھا۔
صحافی عوامی صورتحال، ان کے مسائل اور ان کے جذبات کے عکاس ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ جو کہ عوام کی بدترین صورتحال پر بھی درباری خدمت کی خاطر خوشیوں کے ڈھول بجائیں، انہیں صحافت چھوڑ کر پبلک ریلیشننگ کی کسی کمپنی میں کام کرنا چاہیے۔ صحافت پہلے ہی داغدار ہے، اسے مزید پراگندہ نہ کیا جائے تو مہربانی ہوگی۔