لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیدیا

لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیدیا
لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالتے کا حکم دیتے ہوئے انہیں 4 ہفتے کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی جبکہ عدالت کی طرف سے کوئی گارنٹی نہیں مانگی گئی۔

https://twitter.com/AlarmaDita/status/1195687523563057152?s=20

گزشتہ روز درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر لاہور ہائیکورٹ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست قابل سماعت ہے۔


لاہور ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت یہیں ہوگی۔ 


فیصلہ سنانے کے بعد عدالت نے  نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط  کے خلاف شہبازشریف کی درخواست کو آج سماعت کے لیے مقرر کیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ضمانتی بانڈز کے حوالے سے وفاقی کابینہ کی جانب سے جاری کیے گئے میمورنڈم کو شہباز شریف کی طرف سے چیلنج کیا گیا تھا جس پر آئندہ سماعت جنوری 2020 کے تیسرے ہفتے میں ہوگی۔

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے مطابق عدالت نے نواز شریف کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ’حکومت کی پیدا کی گئی آخری رکاوٹ بھی عدالت عالیہ نے ختم کر دی ہے۔ ’پوری قوم کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘

لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کے دوران شہباز شریف کے وکیل کی جانب سے جمع کروائے جانے والے حلف نامے پر وفاقی وکیل نے اعتراض اُٹھایا تھا۔


عدالت نے کہا کہ عدالت اپنا ڈرافٹ تیار کر کے فریقین وکلا کو دے گی اور اگر وہ اس پر متفق ہوئے تو اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔


شہباز شریف کے وکیل کی جانب سے جمع کروائے گئے حلف نامے کے جواب میں وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا ہے کہ اس ڈرافٹ میں یہ نہیں لکھا گیا کہ نواز شریف کب جائیں گے، کب آئیں گے؟


وکیل کے مطابق ’اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی ہے۔ 25 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کیس کی میں اپیل بھی مقرر ہے اور نواز شریف کو عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے۔‘


وفاقی وکیل نے سوال اُٹھایا کہ ’اگر نواز شریف نہیں آتے تو کیا ہوگا، اس لیے اینڈیمنٹی بانڈ مانگے گئے ہیں۔‘


وفاقی وکیل کو جواب دیتے ہوئے جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ یہ عدالت حکومتی شرائط سے متعلق فیصلہ کرے گی۔ ’ہمارے خیال میں یہ درست نہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت  دی اور حکومت نے شرائط عائد کر دیں۔‘ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’اگر نواز شریف کی صحت ٹھیک ہو جاتی ہے تو وفاقی حکومت کا بورڈ ان کا معائنہ کر سکتا ہے۔‘



’نواز شریف واپس آکر مقدمات کا سامنا کریں گے‘


قبل ازین عدالت کے کہنے پر نواز شریف کے وکیل نے تحریری بیان حلفی کا مسودہ جمع کرایا تھا۔ اس بیان حلفی میں صحت یابی کے بعد نواز شریف کی وطن واپسی کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔


عدالت نے نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل سے بیان حلفی مانگا تھا۔


بیان حلفی میں لکھا گیا ہے کہ نواز شریف پاکستانی ڈاکٹروں کی سفارش پر بیرون ملک جا رہے ہیں اور صحت مند ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے۔ ’ڈاکٹر جیسے ہی اجازت دیں گے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر نواز شریف وطن واپس آئیں گے اور مقدمات کا سامنا کریں گے۔‘ سماعت کی ابتدا میں عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ آیا سابق وزیراعظم ضمانت کے طور پر کچھ دینا چاہتے ہیں یا نہیں؟

اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ اگر نواز شریف حکومت کو بانڈز جمع نہیں کرانا چاہتے تو عدالت میں جمع کرا دیں۔عدالت نے مزید استفسار کیا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے پر جو شرائط لگائی گئی ہیں وہ علیحدہ کی جاسکتی ہیں یا کوئی چیز میمورنڈم میں شامل یا اس میں سے نکالی جا سکتی ہے؟


وفاقی وکیل سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیا گیا میمورنڈم انسانی بنیادوں بنایا گیا تھا۔ سات ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز اور نواز شریف کی واپسی کے دورانیے کے بارے میں عدالت نے سوال کیا کہ اگر دونوں جانب سے فریقین اس میں کمی کر سکتے ہیں یا سابق وزیر اعظم کے واپس آنے سے متعلق  کسی رعایت پر بات ہوسکتی ہے۔


واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ انڈیمنٹی بانڈز کی مد میں کوئی رقم جمع نہیں کروائی جائے گی۔


واپسی کی ضمانت


سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا تھا کہ ’میں انڈر ٹیکنگ دینے کے لیے تیار ہوں نواز شریف صحت یاب ہونے کے بعد وطن واپس آجائیں گے۔‘ اس پر عدالت کی طرف سے سوال آیا، ’آپکی انڈر ٹیکنگ کا کیا طریقہ کار ہے؟‘


نواز شریف کے وکیل نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے موکل کی جانب سے عدالت کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ نواز شریف جب بھی صحت مند ہوئے ملک واپس آ جائیں گے۔ ’ہم عدالت میں انڈر ٹیکنگ دیتے ہیں کہ نواز شریف صحت یاب ہو کر پاکستان آئیں گے۔‘ اس پر عدالت نے پوچھا، ’کیا شہباز شریف یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ نواز شریف کو واپس لائیں گے؟‘


شہباز شریف نے کہا، ’اللہ تعالی نواز شریف کو صحت دے وہ ضرور واپس آئیں گے۔‘ وکیل کی طرف متوجہ ہوکر عدالت نے وفاقی حکومت کا موقف پوچھا۔


انہوں نے کہا، ’حکومت بھی نواز شریف سے انڈر ٹیکنگ ہی مانگ رہی ہے کہ نواز شریف لکھ کہ دیں۔ تاکہ اگر نواز شریف واپس نہیں آتے تو قانون کے مطابق کاروائی کی جاسکے۔‘


عدالت نے کہا، ’اگر آپ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو پھر شرائط لگانے کی کیا ضرورت ہے۔‘


ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے لکھ کر انڈرٹیکنگ لے لیتے ہیں وفاق اس انڈر ٹیکنگ کو دیکھ لے۔ یہ انڈر ٹیکنگ عدالت میں دی جائے گی  اگر انڈر ٹیکنگ پر پورا نہیں اترا جاتا تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔‘