تحریر: (اسد علی طور) صُبح نو بج کر پندرہ منٹ پر جج ویڈیو اسکینڈل کے لئے دائر درخواستوں کی دوسری سماعت کے لئے سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر ون میں پہنچا تھا تو اُمید تھی کے سپریم کورٹ قتل کے دو مُقدمات کی مُختصر سماعت کے بعد توجہ کے مرکز کیس کی سماعت شروع کردے گی۔ تھوڑی ہی دیر میں ن لیگ کے سرگودھا سے ایم این اے شاہ نواز رانجھا اور سابق گورنر پنجاب رفیق رجوانہ بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔ پھر اٹارنی جنرل آئے اور دلائل کے لئے موجود روسٹرم کے بالکل ساتھ دائیں طرف بیٹھ گئے۔
نو بج کر پینتیس منٹ پر دربانوں نے "کورٹ آگئی" کی آواز لگائی اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سینئیر جج جسٹس عظمت سعید شیخ اور مُستقبل کے چیف جسٹس عُمر عطا بندیال کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ چیف جسٹس درمیان میں جبکہ جسٹس عظمت سعید شیخ اُن کے بائیں ہاتھ اور جسٹس عُمر عطا بندیال دائیں ہاتھ پر براجمان تھے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ بظاہر کُچھ تھکے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ پہلے دونوں قتل کے مُقدمات کی اپیلوں کی سماعت توقع سے طویل ہوئی تو صحافیوں سمیت اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور بور ہونے لگے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اپنے بائیں ہاتھ پر سمارٹ واچ باندھے اٹارنی جنرل دس بجکر پندرہ منٹ پر اپنی نشست پر اونگھنے لگے اور دس بج کر چالیس منٹ پر تب اُٹھے جب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دوسرے مُقدمہ کا فیصلہ لکھوانا شروع کیا۔
دس بجکر پچپن منٹ پر فیصلہ مُکمل ہوا تو عدالتی وقفہ کا وقت قریب تھا مُجھ سمیت سب صحافی اُٹھ کر باہر آگئے۔ طبعیت خرابی کی وجہ سے چائے کی دو ہی چُسکیاں لے سکا اور حسنات ملک کے ساتھ تھوڑی چہل قدمی کے بعد گیارہ بجکر بیس منٹ پر کمرہ عدالت میں پہنچا تو وہی چہرے نظر آئے جو چھوڑ کر گیا تھا سوائے ججز کے۔
گیارہ بجکر پینتیس منٹ پر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ واپس بیٹھا تو پہلی آواز ویڈیو اسکینڈل پر دائر درخواستوں کی لگی اور مُجھ سمیت سب صحافیوں نے قلم لکھنے کے لئے کاغذ کے قریب کر لئے۔ اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اُن کو بتایا کہ پِچھلی سماعت پر کیونکہ آپ ہیگ میں تھے لیکن یہاں ابتدائی سماعت میں درخواست گزاروں نے احتساب عدالت نمبر دو کے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
چیف جسٹس کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وہ عدالت کی معاونت کریں کہ عدالت کو کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ویڈیو کے مرکزی کردار جج ارشد ملک نے 16 جولائی کو اسلام آباد میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیکشن کو انسدادِ الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت ایف آئی آر درج کراوئی ہے۔ میں یہ سُن کر مُسکرا دیا کہ ن لیگ کو اُن کے ہی بنائے ہوئے الیکڑانک کرائم ایکٹ کا نشانہ بننا پڑے گا، یعنی اپنی بنائی دوا کو چکھنا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے بینچ کو مزید بتایا کہ ویڈیو اسکینڈل آنے کے بعد واحد ایکشن جج کی خواہش پر درج ایف آئی آر پر لیا گیا ہے جِس میں ایک نامزد مُلزم طارق محمود کو گرفتار کرکے اُن کے قبضے سے ایک یو ایس بی میں موجود وہ نازیبا ویڈیو کی کاپی برآمد کرلی گئی ہے جو 2002 میں مُلتان میں ریکارڈ کی گئی تھی۔
اِس موقع پر اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ یو ایس بی میں ایک اور ویڈیو بھی تھی جِس میں وہ لینڈ کروزر تھی جِس میں سلیم رضا نامی کلائنٹ نے طارق محمود سے ایک لینڈ کروزر اور چیک کے بدلے وہ ویڈیو خرید لی۔ اٹارنی جنرل نے ایف آئی کی اب تک ہونے والی تحقیقات سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ چیک کیش نہیں ہوا جبکہ لینڈ کروزر برآمد کرلی گئی ہے۔
اِس موقع پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے سوال کیا کہ سلیم رضا کون ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سلیم رضا ایک سیاسی جماعت کا رُکن ہے اور اُس نے جج ارشد ملک کی نازیبا ویڈیو کی کاپی ن لیگ کے کارکن ناصر بٹ کو فروخت کردی۔ جبکہ اب سلیم رضا اور ناصر بٹ دونوں پاکستان سے جاچُکے ہیں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا یو ایس بی سے وہ ویڈیو بھی ملی جو مریم نواز نے پریس کانفرنس میں چلائی تھی؟ جس کا جواب اٹارنی جنرل نے نفی میں دیا اور بتایا کہ جج کو بلیک میل کرنے والی ویڈیو ملی تھی۔
اِس موقع پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آبزرویشن دی کہ یہ تو جج کے بیانِ حلفی کے ایک دعویٰ کو سچ ثابت کرتی ہے کہ ایسی ویڈیو موجود ہے جِس سے جج بلیک میل ہورہا تھا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا ویڈیو کا تجزیہ کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو آگاہ کیا کہ بدقسمی سے پاکستان میں فرانزک لیبارٹری تو موجود ہے لیکن وہ ISO 9000 certified معیار کی نہیں ہے۔ اور جو ویڈیو موجود ہے وہ دراصل اصل ویڈیو کی کاپی ہے کیونکہ جِس دور میں ریکارڈ ہوئی تو وہ ٹیپس پر بنائی گئی تھی جو بعد میں ڈیجیٹل میں تبدیل کی گئی۔ لیکن اب اوریجنل ٹیپس نہیں مل سکیں اور طارق محمود کی دراز سے صرف یو ایس بی میں موجود ویڈیو کی ڈیجیٹل کاپی ملی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ویڈیو تو ثابت ہوگئی اور دوسرا جج کا کنڈکٹ بھی کہ وہ ایسے کام کرتا تھا جس سے وہ بلیک میل ہو، جِس پر جج کے خلاف مِس کنڈکٹ کی کاروائی بنتی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے جج کی نازیبا ویڈیو سے بات آگے بڑھاتے ہوئے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جو ویڈیو مریم نواز نے چلائی اُس کی اب کیا حیثیت ہے؟ اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان نے جواب دیا کہ جج نے ویڈیو کے بعض حصوں کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ مُلتان والی ویڈیو سے بلیک میل کرکے ناصر بٹ جج صاحب کو جاتی عُمرا نوازشریف سے ملوانے لے گیا۔
اٹارنی جنرل کے بقول جج کا مزید کہنا تھا کہ گفتگو کا آغاز ناصر بٹ نے کیا اور چھ ہفتوں کی طبی ضمانت پر رہا نوازشریف کو بتایا کہ جج ارشد ملک پر فوج اور عدلیہ کا دباؤ تھا فیصلہ کرتے وقت لیکن جب جج ارشد ملک نے نوازشریف کو بتایا کہ فیصلہ میرٹ پر تھا تو ملاقات ناخوشگوار ہوکر ختم ہوگئی۔
بعد ازاں ناصر بٹ نے جج ارشد ملک سے ملاقات کرکے درخواست کی کے وُکلا کی ٹیم کو العزیز یہ ریفرنس میں مدد کے لیے نکات کی تیاری میں مدد دوں، جس کی ویڈیو بنا کر اُس میں جعلسازی کی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آڈیو اور ویڈیو کو علیحدہ ریکارڈ کرکے بعد میں جوڑا گیا مطلب اُس کو ایڈیٹنگ کے عمل سے گزارا گیا جس کا مطلب ہے جو ویڈیو چلائی گئی وہ اوریجنل نہیں تھی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا جو ویڈیو چلائی گئی وہ ایف آئی اے کے پاس ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کاپی ہے۔ چیف جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وہ ہر ٹی وی چینل کے پاس ہوگی۔ اگر جج صاحب کہتے ہیں ویڈیو میں جعلسازی ہوئی تو اُس ویڈیو کو برآمد کیا جانا چاہئے تھا کیونکہ وہ ایف آئی آر کا حصہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ ویڈیو برآمدگی کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ چیف جسٹس نے اِس موقع پر اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اِس ویڈیو اسکینڈل پر ایکشن لینے کے لئے سپریم کورٹ کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو توہینِ عدالت، سپریم کورٹ کے ججوں پر مبنی انکوائری کمیشن، حکومت کی طرف سے 2017 کے انکوائری ایکٹ پر جوڈیشل کمیشن قائم کرنے، پیمرا آرڈینینس کے کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت کاروائی، پی پی ایل سی، نیب آرڈیننس سائبر کرائم ایکٹ اور انسدادِ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کاروائی کے آپشنز بتائے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آپشنز سُن کا ریمارکس دئیے کہ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ ہم درخواستیں مُسترد کردیں اور مُتاثرہ فریقین کو مُتعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا کہہ دیں۔ اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان فوراً بولے کہ سپریم کورٹ اپیل کا حتمی فورم ہے اور اُس کی کوئی بھی آبزرویشن کیس پر اثر انداز ہوگی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اِس تمام معاملہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو جج کا مِس کنڈکٹ ہے اور دوسرا العزیز یہ ریفرنس کا فیصلہ جو دستاویزات اور شہادتوں کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اِسلام آباد ہائیکورٹ کو العزیزیہ ریفرنس کی دستاویزات کا جائزہ لینے دیں کہ فیصلہ درُست ہوا یا نہیں۔
اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ فیصلہ دے گی تو وہ اپیلوں پر اثر انداز ہوگی اِسلیے متاثرہ فریق کو اسلام آباد ہائیکورٹ جانے چاہئے اور وہاں سے ریلیف مانگنا چاہئے۔ اِس موقع پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انتہائی اہم آبزرویشن دیتے ہوئے کہا کہ پیمرا ایکٹ ہو یا الیکٹرانک میڈیا کرائم یا نیب آرڈیننس یا سائبر کرائم ایکٹ کوئی بھی العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ انکوائری کمیشن بھی صرف رائے دے گا لیکن فیصلہ کالعدم قرار دینا اسلام آباد ہائیکورٹ کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جو بھی مواد آئے گا اُس کا جائزہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہی لے سکتا ہے کہ آیا وہ العزیزیہ ریفرنس کے فیصلہ سے متعلقہ ہے یا نہیں اور جب تک اسلام آباد ہائیکورٹ مواد سے مطمعن نہیں ہوتا وہ ریلیف نہیں دے گا۔ کمیشن زیادہ سے نئی شہادتیں ریکارڈ کرسکتا ہے جِن کو اسلام آباد ہائیکورٹ العزیزیہ ریفرنس میں ایڈیشنل شہادتوں کے طور پر شامل کرکے نیا فیصلہ لِکھوا سکتا ہے یا ری ٹرائل کے لئے بھیج سکتا ہے۔ چیف جسٹس کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ فیصلہ کالعدم قرار نہیں دے سکتی تو مُداخلت کیوں کرے؟ ہماری تحقیقات سے صرف ہیڈ لائنز ہی بنیں گی۔ ہم سمجھتے ہیں مُتاثرہ فریق کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنا چاہئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا کسی نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جی نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ احتساب عدالت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ماتحت ہے اور آئین اسلام آباد ہائیکورٹ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ احتساب عدالت کا فیصلہ دیکھے۔ اِس موقع پر چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دئیے جو اشارہ دیتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے ویڈیو اسکینڈل پر کاروائی کی بھی تو وہ صرف جج کی حد تک ہوگی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جج کا معاملہ ہم سے مُتعلقہ ہے کیوں کہ جج کے کنڈکٹ سے ججز اور عدلیہ کی ساکھ جُڑی ہے۔ ایک جج جِس کی پندرہ سال پُرانی ویڈیو سے اُس کو بلیک میل کیا جاسکتا ہے وہ بہت کمزور پوزیشن رکھتا تھا اور اِسی لئے جاتی عُمرا سے مدینہ ہر جگہ گھومتا رہا، اِس کو ایسے نہیں چھوڑیں گے۔
اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کی تحقیقات چلنے دیں اور متاثرہ فریق اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلے، سپریم کورٹ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کو ہدایات نہیں دینی چاہئے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دئیے کہ آپ سمجھتے ہیں ہمیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے اختیارات میں مُداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ چیف جسٹس کھوسہ نے ساتھی ججوں سے بینچ میں بیٹھے ہوئے ہی مائیک بند کرکے پانچ منٹ تک مشاورت کی اور اُس کے بعد اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ ایف آئی اے کی انکوائری کب تک مُکمل ہوگی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کم از کم تین ہفتے لگیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کِس حد تک جانا چاہئے اور کِس حد تک نہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ایف آئی اے سے انکوائری جلد مُکمل کروائیں تاکہ ہمیں پتہ ہو کیا کرنا ہے۔ اِس موقع پر چیف جسٹس نے ن لیگ کی طرف سے ویڈیو اسکینڈل کے سپریم کورٹ کی طرف سے نوٹس لیے جانے کے مطالبات پر اہم آبزرویشن دی کہ ہم اندھیرے میں ہاتھ نہیں مارنا چاہتے، بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ ہم اندھیرے میں چھلانگ مار دیں۔
چیف جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا یہ بہت عجیب بات ہے کہ اتنا بڑا الزام لگا دیا لیکن کسی نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ میں حیران ہوں مُلزم جیل میں بند ہے اگر کسی کو اُس کی فِکر ہے تو وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کیوں نہیں گیا؟ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ کوئی جو مرضی کرلے سپریم کورٹ کسی کے دباو پر ایکشن نہیں لے گی۔ عدالت مُحتاط چلے گی تاکہ کسی ایک فریق کے پلڑے میں وزن نہ ڈال دیا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا عدالت بیلینس کرے گی۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے ایف آئی اے کو تین ہفتوں میں انکوائری رپورٹ جمع کروانے کا حُکم دیتے ہوئے سماعت تین ہفتوں کے لئے مُلتوی کردی۔ دِلچسپی کی بات ہے ناں تو کسی درخواست کنندہ، نہ ہی آج اٹارنی جنرل اور نہ ہی بینچ کے کسی رُکن نے دونوں سماعتوں میں ابھی تک اِس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ العزیزیہ ریفرنس کا ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ کے نہیں بلکہ جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل عملدرآمد بینچ کے زیرِ نگرانی ہوئی۔