احمد شہزاد رانا 860 وٹوں کی بھاری اکثریت سے سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن منتخب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے 1485 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل عامر سہیل کو 614 ووٹ ملے۔ یوں احمد شہزاد رانا نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی ہے۔ رانا صاحب عاصمہ جہانگیر گروپ کے امیدوار تھے۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ آج دس سال قبل جب عاصمہ جہانگیر گروپ کی بنیاد رکھی گئی تو احسن بھون ،عابد ساقی ،اعظم نذیر ثاڑر،کے ساتھ احمد شہزاد رانا اولین لوگوں میں سے ایک تھے اور آج گروپ کے قیام کے دس سال بعد وہ سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن منتخب ہوئے ہیں۔ ان دس سالوں کو یاد کرتے ہوئے ایک دم کسی فلم کے فلش بیک کی طرح ماضی میں چلا جاتا ہوں۔ میں اس وقت عاصمہ جہانگیر مرحومہ کا میڈیا ایڈوائزر تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا عروج تھا وہ ہر روز از نوٹس لیتے تھے وہ اپنی ذات میں خود حکومت بنے ہوئےتھے۔
یہ روز حکومتی اہلکاروں کو سپریم کورٹ میں طلب کر کے انکی باز پرس کیا کرتے تھے۔ صبح 9 بجے سے 11 بجے تک صرف چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ٹکر نیوز چینلز کی سکرین پر چلا کرتے تھے۔ صدر اور وزیراعظم سب پس پشت میں چلے گئے تھے۔ یوں لگتا تھا صرف ون میں آرمی افتخار چودھری ہی ہیں۔ باقی سب کوئی حثیت نہیں رکھتے۔ ان حالات میں وکلاء کے سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ اس وقت ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت موجود ہے۔
اسکی موجودگی میں اس جوڈیشل ایکٹیو ازم کی کیا ضرورت ہے۔ لہذا اعلی عدلیہ کو یہ باور کرانے کے لئے وکلاء کے نمائندہ اداروں جیسے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل ہیں انکی سربراہی میں ایسے باہمت سنجیدہ وکلاء کے سپرد کی جائے جن کی بات میں وزن ہو اور وہ ایک صاحب طرز ہستی ہوں۔ یوں قرعہ فال عاصمہ جہانگیر مرحومہ کے نام نکلا اور وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارتی امیدوار بن گئیں اور میں ان کا میڈیا ایڈوائزر مقرر ہوا۔
فین روڈ میں ان کا انتحابی دفتر بنایا گیا۔ جہاں احسن بھون ،عابد ساقی ،اعظم نذیر تارڑ کے ساتھ احمد شہزاد رانا بھی روز آتے اور زور شور سے عاصمہ جہانگیر کی انتحابی مہم شروع کر دی گئی۔ میں نے اس دوران احمد شہزاد رانا کو بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کرتے دیکھا۔ وہ ایک پراشوب دور تھا۔ آج کے جمہوریت کے اوتار نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم عمران خان سب جوڈیشل ایکٹیو ازم کے حامی تھے اور عاصمہ جہانگیر مرحومہ کے خلاف تھے۔ صرف پپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے وکلاء عاصمہ جہانگیر مرحومہ کو سپورٹ کر رہے تھے۔ احمد شہزاد رانا نے بڑی لگن سے انتحابی مہم چلائی۔ میں جس روز بھی انتحابی مہم کے حوالے سے پریس ریلیز تیار کرتا تو احمد شہزاد رانا میرے ساتھ بیٹھ جاتے اور وکلاء کے نام اس پریس ریلیز میں شامل کراتے۔ عاصمہ جہانگیر مرحومہ کے نوجوان اور پرعزم جونیر قمر حنیف رامے ایڈوکیٹ اور شفیق چمیہ بھی میرے ساتھ ہوتے۔
پھر میرا معاون ندیم خان اس پریس ریلیز کو محتلف اخبارات کے دفاتر میں تقسیم کرتا۔ اخر کار سب کی محنت رنگ لائی اور عاصمہ جہانگیر احمد اولیس صاحب جو آج کل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب ہیں ان کو شکست دے کر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر بن گئیں۔ اس دن رانا شہراز بہت خوش تھے ،اور آج ٹھیک دس سال بعد اج احمد شہزاد رانا خود سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل منتخب ہو گئے اور عاصمہ جہانگیر مرحومہ کے ادھورے مشن کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
احمد شہزاد رانا نے سندھ اور جنوبی پنجاب سے بھرپور ووٹ لیے ،حیدرآباد سے رانا صاحب کو 33 انکے مخالف عامر سہیل کو 10 ،سکھر سے رانا صاحب کو 28 عامر سہیل کو 1 کراچی سے رانا صاحب کو 126 عامر سہیل کو 120 بہاول پور سے رانا صاحب کو 66 عامر سہیل کو 6 ملتان سے رانا صاحب کو 128 اور عامر سہیل کو 30 ووٹ ملے آس طرح باقی علاقوں سے بھی احمد شہزاد رانا نے لیڈ حاصل کی اب وہ الیکشن جیت کر بہت پرعزم ہیں کہ وہ اس کام کو سر انجام دینے میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں گے جس کا آغاز دس سال قبل کیا گیا تھا رانا صاحب آئین اور قانون کی پاسداری غیر جمہوری قوتوں کی حوصلہ شکنی کا ارادہ رکھتے ہیں اور وکلاء کی فلاح وبہبود انکی اولین ترجیح ہے۔
میری سیکریٹری جنرل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے یہ درخواست ہے وہ اعلی عدلیہ کے ساتھ بیٹھ کر ایسا لائحہ عمل بنائیں جس سے غریب سائلین کو سستا اور فوری انصاف فراہم ہو جائے۔ اعلی عدلیہ کے ساتھ ساتھ ماتحت عدلیہ میں بھی اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے۔ رانا صاحب اس ملک کا غریب دعائیں کرتا کہ اسے تھانہ کچہری میں نہ جانا پڑے آپ پر بحثیت سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اب یہ زمہ داری ہے کہ میرے ملک کے غریب سائلین کا یہ خوف ختم کریں۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔