پاکستان کے عام آدمی کی زندگی میں سختیاں بڑھتی جا رہی ہیں لیکن یہ عام آدمی آج کل پھر اُمید سے ہے۔ پیر کی صبح پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے گیٹ نمبر ون سے لے کر کمیٹی روم نمبر سیون تک مجھے کئی سرکاری ملازمین اور افسر ملے۔
ہر کوئی یہ چاہتا تھا کہ میں اُس کی خواہش کو خبر بنا کر اُسے سنا دوں۔ جیسے ہی گیٹ نمبر ون سے اندر داخل ہوا تو ایک پولیس افسر نے سلیوٹ مارا اور کہا، '' یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘۔ پولیس افسر کا سلیوٹ مارنا اور اپنے ماتحتوں کے سامنے میرے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث بنا۔
اس کے پیچھے پارلیمنٹ ہاؤس کی سکیورٹی سے وابستہ ایک اہلکار کھڑا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کاغذات پر نظر ڈالی اور مجھے کہا کہ آپ کو کمیٹی روم سیون میں جانا ہے نا؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس نے مجھے راستہ سمجھایا اور بتایا کہ یہ کمیٹی روم چوتھے فلور پر ہے۔ پھر وہ کچھ قریب آیا اور سرگوشی کے انداز میں پوچھا،''خوشخبری کب آ رہی ہے؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا کون سی خوشخبری؟ وہ کچھ اور قریب آیا اور مسکرا کر بولا،''سر اتنے بھولے نہ بنیں، آپ کو تو پتہ ہو گا کہ یہ حکومت کب جا رہی ہے؟‘‘
یہ سن کر میں نے قہقہہ لگایا اور آگے بڑھ گیا۔ لفٹ آپریٹر مجھے گراؤنڈ فلور سے تھرڈ فلور پر لایا۔ مسکرا کر میری طرف دیکھتا رہا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ پوچھتا رہا۔ میں نے بھی مسکرا کر اسے آنکھ مار دی۔ اس نے فوراﹰ پوچھا،''یہ واقعی پکیّ خبر ہے؟‘‘ میں نے کہا یار بتاؤ کمیٹی نمبر سیون کدھر ہے؟ وہ سنجیدہ ہو گیا اور بولا کہ جناب چوتھے فلور پر، آپ سیڑھیوں سے جائیں گے؟
چوتھے فلور پر کمیٹی روم نمبر سیون تک پہنچنے کے لیے ایک لمبا فاصلہ طے کرنا تھا اور اس دوران کم از کم چار افراد نے روک کر مجھ سے ایک ہی سوال پوچھا،'' کتنے دن اور ہیں؟‘‘ کمیٹی روم نمبر سیون میں داخل ہوا تو وفاقی سکریٹری اطلاعات، چیئرمین پیمرا، اعلیٰ پولیس حکام اور وزارت داخلہ کے افسران بالکل خاموش بیٹھے تھے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اس اجلاس میں شرکت کے لیے مجھے قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ کے مختلف افسران نے بار بار یاد دہانی کرائی تھی۔ شام کو قومی اسمبلی کا اجلاس تھا۔ اس لیے قائمہ کمیٹی کا اجلاس صبح گیارہ بجے رکھا گیا تھا لیکن خلاف معمول سوا گیارہ بجے تک حکومت اور اپوزیشن کا کوئی رکن اجلاس میں نہیں پہنچا۔
میں خاموشی سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا تو قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ کا ایک اہلکار میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے میرے کان میں کہا کہ آج یہ اجلاس نہیں ہو گا، یہ اجلاس 19 نومبر کے بعد ہو گا۔ میں نے پوچھا آج اجلاس کیوں نہیں ہو گا؟ اس نے کہا کہ میں نے تو آپ کو اندر کی خبر دے دی ہے۔ اجلاس کے ایجنڈے میں آپ کا معاملہ بھی ہے، اسد طور اور ابصار عالم پر حملے کا معاملہ بھی ہے تو کمیٹی میں شامل لوگوں نے مناسب سمجھا کہ ان اہم ایشوز پر 19 نومبر کے بعد ہی اجلاس رکھا جائے۔
اس نے بتایا کہ ابھی دو تین ارکان اسمبلی آئیں گے اور کورم پورا نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اجلاس ملتوی کر دیں گے۔ اس دوران وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان آ گئے۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو بڑی گرمجوشی سے ملے اور پوچھا کہ آپ پر پابندی کب ختم ہو گی؟ میں نے انہیں یاد دلایا کہ حکومت میں تو آپ ہیں، آپ کو بہتر پتا ہو گا کہ مجھ پر پابندی کب ختم ہو گی؟
انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا سب جانتے ہیں ہم نے آپ پر پابندی نہیں لگائی۔ ان کی بات سن کر سیکریٹری اطلاعات اور چیئرمین پیمرا بھی مسکرا دیے۔ اس اجلاس میں ابصار عالم اور اسد طور کو بھی بلایا گیا تھا۔ وہ دونوں بھی پہنچ چکے تھے۔ پونے بارہ بجے قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے چیئرمین اور مسلم لیگ نون کے رہنما میاں لطیف جاوید تشریف لے آئے۔ مجھے سمجھ آ چکی تھی کہ حکومت اور اپوزیشن کا صرف ایک ایک رکن آیا ہے تاکہ کورم کا مسئلہ بنا کر اجلاس ملتوی کر دے۔
اجلاس شروع ہوا تو میاں جاوید لطیف نے کہا کہ گلگت بلتستان کے ایک سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے بیان حلفی نے پاکستان کی عدلیہ کی ساکھ پر بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں اور سوال یہ بھی ہے کہ حامد میر اور ابصار عالم پر حملہ کرنے والے کیوں نہیں پکڑے جاتے؟ اسد طور پر حملہ کرنے والے کیوں نہیں پکڑے جاتے؟ اور حامد میر کس کے کہنے پر چھ ماہ سے آف ایئر ہیں؟
ابھی ان کی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ علی نواز اعوان نے بات شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں سوال اٹھائیں گے تو پھر لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ملک قیوم کو کیوں بھول جاتے ہیں، جو مسلم لیگ نون کی قیادت سے فون پر ہدایات لے کر ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف فیصلے سنایا کرتے تھے؟
علی نواز اعوان نے کہا کہ آپ نے حامد میر اور ابصار عالم کی بات کی، ضرور کریں لیکن سندھ کے صحافی عزیز میمن کی بھی بات کریں۔ میاں جاوید لطیف نے انہیں یاد دلایا کہ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات عزیز میمن کے معاملے پر سندھ پولیس کے افسران کی جواب طلبی کر چکی ہے۔ علی نواز اعوان نے کورم کی نشاندہی کی اور اجلاس ملتوی ہو گیا۔ واپسی پر پارلیمنٹ ہاؤس کی راہداریوں میں، جو بھی ملا، اس نے یہی پوچھا کہ 19 نومبر کے بعد کیا ہو گا، کتنے دن اور ہیں؟
پیر کی شام قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ سے نیا پیغام ملا کہ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اگلا اجلاس 22 نومبر کو ہو گا۔ عمران خان بھی جانتے ہیں کہ 19 نومبر کو آئی ایس آئی کے سرابرہ کی تبدیلی کے بعد ان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں لہذا انہوں نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 17 نومبر کو طلب کر لیا ہے۔ وہ اس اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلانے کے لیے قانون سازی کی کوشش کریں گے۔ یہ قانون سازی ان کے لیے سیاسی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے اپنے اتحادیوں کے ووٹ حاصل کرنے لیے لیے ہر حربہ استعمال کیا ہے۔
صورتحال کچھ یوں ہے کہ عمران خان نا صرف اپنے اتحادیوں بلکہ اپنی جماعت کے بہت سے ارکان کا اعتماد کھو چکے ہیں لیکن اپوزیشن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ وزیر اعظم کا عہدہ اتنا بے توقیر اور بے اختیار ہو چکا ہے کہ کوئی دوسرا وزیر اعظم بننے کے لیے تیار نہیں۔
اپوزیشن کو ابھی طے کرنا ہے کہ تبدیلی کیسے لانی ہے؟ تحریک عدم اعتماد یا نیا الیکشن؟ نئے الیکشن کے لیے لانگ مارچ کا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ عام آدمی تبدیلی کے لیے تیار ہے۔ اس کی اُمیدیں اپوزیشن سے وابستہ ہیں لیکن فی الحال اپوزیشن تیار نہیں۔ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام آگے نکل جائیں اور اپوزیشن پیچھے رہ جائے۔
بشکریہ DW Urdu
حامد میر پاکستان کے مایہ ناز صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہیں۔