مصطفیٰ نواز کھوکھر؛ خوشامدی کالم نگاروں اور چاپلوس اینکروں سے بچیں!

مصطفیٰ نواز کھوکھر؛ خوشامدی کالم نگاروں اور چاپلوس اینکروں سے بچیں!
مسٹر اینڈ مسز اعظم سواتی کی نام نہاد پورن ویڈیو مارکیٹ میں آئی۔ ساری کائنات گلا پھاڑ پھاڑ کر بولی: 'جھوٹی ہے جھوٹی ہے!' ایف آئی اے نے سوموٹو ایکشن لے کر فلم کا پوسٹ مارٹم کیا اور فتویٰ جاری کیا: 'اتنی ہی جعلی ہے جتنی سنی لیون کی ماضی والی پورن فلمیں اصلی ہیں!' مگر مسڑ سواتی بضد ہیں کہ عوام کیوں اس بات پر ایمان نہیں لا رہے کہ یہ نہ صرف اصلی ہے بلکہ 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' سے بھی دو ہاتھ آگے کی بلاک بسٹر ہے۔

کچھ روز بعد دوسری فلم آتی ہے۔۔جسٹ مسٹر پرویز رشید۔ یعنی صرف مسڑ پرویز رشید۔ یا باالفاظِ دیگر نو مسٹر اینڈ مسز پرویز رشید بٹ اونلی مسٹر پرویز رشید۔ لیکن پرویز رشید کو سیلز یا مارکیٹنگ یا پروموشن یا ڈسٹری بیوشن کا ذرا علم نہیں۔ کوئی پریس کانفرنس نہیں۔ کوئی کمنٹ نہیں۔ کوئی شور اور واویلا نہیں۔ ہُو کا عالم! جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ (سمجھدار لوگ، غیرت مند لوگ، دوراندیش لوگ، جنہیں ستار العیوب کی اہمیت کا اندازہ ہے خاموشی ہی اختیار کرتے ہیں۔) اس فلم کو بھی سبھی جعلی قرار دیتے ہیں۔

دونوں فلموں میں فرق یہ ہے کہ پہلی والی ریلیز ہی نہیں ہوتی۔ صرف حامد میر ایسے 'وڈے' اور باخبر صحافیوں کے لئے کوئی انڈر گراؤنڈ سنیما چارٹر کرایا جاتا ہے جہاں اس کی ایکسکلوسِو نمائش ہوتی ہے۔ بدقسمتی کہ 'بھائی' مصطفیٰ نواز کھوکھرکو انوائٹ نہیں کیا جاتا۔ مدعو صحافی و چپڑ قناعتی، اینکر و ٹینکر، تجزیہ و بخیہ کار تو جعلی قرار دیتے ہیں۔ بھائی کھوکھر ہمدردی جتانے کے لئے، جسے یار لوگ 'نمبر بنانا' گردانتے ہیں، ایک مذمتی ٹوئیٹ داغ دیتے ہیں جو اپنے سندھی نیلسن منڈیلا یعنی زرداری ساب کو پسند نہیں آتا۔

بھائی کھوکھر کی تو دلی مراد ہی یہی تھی کہ نہ پسند آوے اور زرداری ساب استعفیٰ مانگ لیں۔ انہوں نے تو استعفیٰ تیار کر کے نہ جانے کب سے رکھا بھی ہوا تھا۔ صرف تاریخ والا خانہ خالی تھا۔ تو جناب استعفیٰ مانگا گیا اور بھائی کھوکھر خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ استعفیٰ جیب سے بعد میں نکالا، ٹوئیٹ پہلے کیا کہ حق کی خاطر میں تو دے رہا ہوں قربانی اپنے گرو شاہ محمود قریشی کی طرح۔ جے جے کار ہوئی۔ ٹوئیٹ ری ٹوئیٹ ہوا۔ آج کل کے دجالی میڈیا کو تو ویسے ہی ضرورت ہوتی ہے ہر پانچ منٹ بعد ایک درجن رنڈی رونوں کی۔ شکر ہے ایک تو ملا! اب اس پر گھڑے جانے لگے بھانت بھانت کے مضامین، کالم، تجزیے غرض جس کا جو بس چلا۔۔۔اس نے چلایا۔

مکالمہ تو یہ ہونا چاہئیے تھا کہ کیوں پی پی پی ایک لبرل، پروگریسو اور لیفٹ والی جماعت سے تنگ نظر، جامد اور دقیانوسی نظریات والی پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ مگر یار لوگوں نے موضوع بنایا بھائی کھوکھر کو۔ پھٹتے ہوئے آموں پر تحقیقی مقالہ لکھنے والے اپنے محمد حنیف ساب نے لیا چیزہ بھائی کھوکھر کا براستہ کالم بی بی سی اردو۔ جُگتیں لگائیں جیسے ان کا انداز ہے اور فلسفہ خوشامد کے عظیم سکالر حامد میر۔۔۔جوکھٹی میٹھی گولیاں کھانے کے بعد اچانک رستم آزادی صحافت، بابائے انسانی حقوق اور مبلغ ایمان و دھرم و اتہاس و راج نیتی، وغیرہ وغیرہ بن کر ابھرے ہیں اور ابھی تک ابھر ہی رہے ہیں، نے بھائی کھوکھر کو اصولوں کی سیاست کا مہاتما گاندھی بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا بذریعہ کالم روزنامہ جنگ جس کا نام ہونا چاہئیے تھا 'بھنگ' اور بذریعہ اسی کے ٹی وی چینل جیو جسے پیو (پی کے والا ٹُن) کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔

اچھا اب کچھ غیر سنجیدہ باتیں کرتے ہیں۔ چند برس قبل زرداری صاحب نے عرفان اللہ مروت کو پی پی پی میں شریک کرنے کا فیصلہ کیا تو بی بی کی بہادر بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے باپ کے فعل کی مذمت سرعام ٹوئٹر پر کی۔ زرداری ساب نے عقل مندی دکھائی کہ فیصلہ واپس لے لیا۔ یہ مروت ساب مرحوم غلام اسحاق خان کے داماد ہیں مگر وجہ شہرت وینا حیات ریپ کیس ہے۔ جو ٹوئیٹ بھائی کھوکھر نے کیا وہ بلاول کو کرنا چاہئیے تھا۔ مگر اقتدار کی ہوس نے سب کو سیم پیچ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اب کوئی فرق نہیں ہے نون لیگ، پی ٹی آئی، پی پی پی یا کسی اور ٹولے میں۔ سب کا منشور ایک ہی ہے۔ رام رام جپنا، پرایا مال اپنا۔ کامیاب وہی جو سب سے زیادہ مال بٹورے۔

بھائی کھوکھر والی نوٹنکی نے ماضی کی پھٹیچر فلم 'ریمنڈ ڈیوس اور شاہ محمود قریشی' کی یاد دلا دی۔ اس وقت قریشی وزیر خارجہ تھا۔ ڈیوس والے ایشو پر اس کی سوئی ہوئی غیرت جاگ اٹھی۔ کرسی کو لات ماری۔ خیبر سے کراچی تک وڈے وڈے جلسے کئے۔ رنڈی رونوں کے ترسے نوے نوے نجی ٹی وی چینلوں نے اس کے چار چار گھنٹوں پر مشتمل فرمودات لائیو نشر کئے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگایا اس نے کہ کسی طرح سادہ لوح لوگوں کو یہ باور کرا دے کہ وہی ذوالفقار علی بھٹو ہے اور زرداری ساب اسے وزیر اعظم لگا دیں۔ نہ ہوا۔ پی پی پی چھوڑ کر پاٹے خان کے قدموں میں گرا۔ سوال یہ ہے کہ بھائی کھوکھر نے ابھی تک کچھ ایسی فلم بنانے کا نہیں سوچا۔ پراگریس صرف محمد حنیف یا حامد میر وغیرہ وغیرہ کے کالمز ہیں۔ کیا وہ شاہ محمود کی طرح نکلتے ہیں اور عوام کو حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں؟

اور عوام بھی تو جید جاہل ہیں۔ کیا معلوم نہ یقین کریں بھائی کھوکھر کی صداقت و قربانی پر۔ پھر کیا راستہ ہو گا؟ گجرات کے چودھریوں کو چھوڑ کر سندھ کے مردِ حُر کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد ان کے پاس اب کیا چارہ ہے؟ کیا پاٹے خان کا گنڈا بند شاگرد ہونا ہے یا نانی کا مرید بننا ہے؟ ہمارا مفید اور مفت مشورہ بھائی کھوکھر کو یہ ہے کہ سیاست دیسی ہو یا ولایتی، میڈ ان چائنا ہو یا جاپانی، یہ نری کوئلوں کی دلالی ہے۔ گورا چٹا، صاف سے صاف کردار والا بھی اس میں گھس کر کالا ہی ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے لئے مارٹن لوتھر کنگ یا عاصمہ جہانگیر کی طرح بھی لڑا جا سکتا ہے۔ انسانیت کی خدمت ایدھی صاحب کی طرح بھی کی جاسکتی ہے۔ بس خوشامدی کالم نگاروں، چاپلوس اینکروں اور درباری رپورٹروں سے اپنے آپ کو بچائیں۔ ورنہ یہ آپ کی لُٹیا ڈبونے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے! اگر آپ سچے ہیں تو خودبخود امر ہو جائیں گے۔ ٹوئٹر تھریڈز، ٹاک شوز یا کالمز چار دن کی چاندنی ہے پھر اس کے بعد اندھیری رات!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔