ہم سے ہی پیسے مانگ کر ڈیم بنانا ہے تو تنقید بھی سننا ہوگی

ہم سے ہی پیسے مانگ کر ڈیم بنانا ہے تو تنقید بھی سننا ہوگی
معزز چیف جسٹس آف پاکستان نے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر پہلے تنقید کرنے والوں کو وارننگ دی اور اب محترم ثاقب نثار نے ڈیم کی تعمیر میں کسی بھی رکاوٹ ڈالنے والے پر آرٹیکل چھ لگانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یاد رہے پاکستان کے آئین کا آرٹیکل چھ غداری کے الزام کی صورت میں ملزم پر عائد ہوتا ہے۔ ثاقب نثار نے پہلے توہین عدالت کے قانون کی آڑ لے کر اپنے کمزور قانونی فیصلوں پر ہوتی تنقید کو دبانے کی کوشش کی اور اب آرٹیکل 6 لگانے کی دھمکی دے کر دیامیر بھاشا ڈیم کے منصوبے پر تنقید یا مخالفت کرنے والوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان میں پہلے مقبولیت کے زعم کے مرض کا شکار صرف فوجی آمر ہوا کرتے تھے

شاید یہ دھمکی اس مایوسی کا نتیجہ ہے جو دیامیر بھاشا فنڈ میں انتہائی کم رقم جمع ہونے سے پیدا ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کا خیال تھا کہ وہ وطن عزیز کی مقبول ترین شخصیت ہیں اور ان کی چندے کی اپیل پر دنوں یا مہینوں میں دیکھتے ہی دیکھتے عوام لبیک کہتے ہوئے دیامیر بھاشا ڈیم فنڈ کی مطلوبہ رقم جو کہ 1400 ارب روپے کے لگ بھگ ہے جمع کروا دے گی اور راوی پھر چین ہی چین لکھے گا۔ پاکستان میں پہلے مقبولیت کے زعم کے مرض کا شکار صرف فوجی آمر ہوا کرتے تھے جو مارشل لا نافذ کرنے کے بعد اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے تھے کہ وطن عزیز میں ان سے مقبول کوئی اور شخصیت نہیں ہے لیکن اقتدار کا سورج ڈھلتے ہی انہیں ان کی اوقات کا پتا چل جایا کرتا ہے۔ اب یہ زعم مقبولیت کا مرض عدلیہ میں بھی سرایت کر چکا ہے اسی لئے اعلیٰ عدلیہ میں گذشتہ کچھ عرصے سے فیصلے آئین اور قانون کو سامنے رکھتے نہیں سنائے جاتے بلکہ عوام میں مقبولیت حاصل کرنے اور میڈیا پر توجہ حاصل کرنے کے لئے سنائے جاتے ہیں۔

ایک ایسی عدلیہ جو۔۔۔

منصف کی کرسی پر بیٹھنے کا مطلب عدالتی مارشل لا اور ریاست کو اپنے انداز سے چلانے کے طور پر لے لیا جائے تو یہ آمریت کی بدترین شکل کہلاتی ہے اور ادارے کی ساکھ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ ایک ایسی عدلیہ جو ایوب خان کے مارشل سے لے کر مشرف کے مارشل لا تک کو قانونی جواز فراہم کرتی آئی ہو اور جس کے ماتھے پر ایک منتخب وزیراعظم کے عدالتی قتل کا داغ اور دوسرے منتخب وزیراعظم کو ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کی بنا پر نااہل کرنے اور جیل میں بھیجنے کا داغ ہو اس کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آزادی اظہار رائے پر قدغن لگاتے ہوئے تنقید کو غداری قرار دے اور ریاست کے امور پر زبردستی اپنی مرضی مسلط کرے۔

ہمارا قانونی نظام آج بھی گوروں کی غلامی کے دور کا نظام ہے

پرویز مشرف جس نے آئین کو دو بار معطل کیا اس پر آرٹیکل چھ کا اطلاق نہیں ہوا لیکن دیامیر بھاشا ڈیم کے حوالے سے مخالفت یا تنقید کرنے والوں پر آرٹیکل چھ کے فوری اطلاق کی دھمکی آ گئی۔ اس کا مطلب تو صاف ہے کہ پاکستان میں قانوں کا دہرا نظام موجود ہے جو صرف اور صرف سٹیٹس کو کے تسلط کو برقرار رکھنے میں تو معاونت فراہم کرتا ہے لیکن ریاست میں بسنے والی عوام کے لئے یہ بے معنی اور بے فائدہ ہے۔ ہمارا قانونی نظام آج بھی گوروں کی غلامی کے دور کا نظام ہے جس میں توہین اور غداری کی دفعات کو محض اختلاف کرتی آوازوں کو دبانے کے لئے شامل کیا گیا ہے اور ان کا اطلاق بھی اسی مقصد کے لئے ہوتا ہے۔ اسے طاقت کا زعم سمجھیے یا مقبولیت کے خبط میں مبتلا ہونا، کہ ایک ایسا منصوبہ جو کبھی بھی چندے اور خیرات کے بل پر مکمل نہیں ہو سکتا اس پر تنقید کو چیف صاحب خود پر تنقید سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والے تمام افراد اس منصوبے کی اندھی دھند تقلید کریں۔

عوامی چندے سے اس کے فنڈ میں رقم منتقل ہو رہی ہے اس لئے اس پر تنقید بھی ہوگی

اسے جبری طور پر اطاعت کہا جاتا ہے اور یہ اطاعت ڈکٹیٹروں کو درکار ہوا کرتی ہے تاکہ وہ اپنے ناجائز اقتدار کو دوام بخش سکیں۔ دیامیر بھاشا ڈیم چونکہ عوامی منصوبہ ہے اور عوامی چندے سے اس کے فنڈ میں رقم منتقل ہو رہی ہے اس لئے اس پر تنقید بھی ہوگی اور اس منصوبے کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اسی طرح کمزور عدالتی فیصلوں پر تنقید کا عمل بھی جاری رہے گا کیونکہ نہ تو کوئی بھی شخص یا ادارہ مقدس گائے کے رتبے پر زور زبردستی براجمان رہ سکتا ہے اور نہ ہی ہم انگریز دور کی غلامی والے دور میں زندہ ہیں جہاں توہین اور غداری کی تلواریں دکھا کر زباں بندی کروا لی جائے۔

غداری کے الزامات کی آڑ میں مخالفین یا باغی عناصر کو زیر کرنے کا عمل کارگر اور آزمودہ ہتھیار تھا

پرانے زمانے میں توہین اور غداری کے الزامات کی آڑ میں مخالفین یا باغی عناصر کو زیر کرنے کا عمل کارگر اور آزمودہ ہتھیار تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز سامراج نے مقامی آبادی پر تسلط قائم کرنے کی خاطر انہی قوانین کا استعمال کیا۔ انگریز دور میں توہین عدالت اور یونین جیک سے بغاوت کے جرم میں غداری کے الزامات آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو راہ سے ہٹانے یا پابند سلاسل کرنے کے لئے لگائے جاتے تھے۔ ان قوانین کا سہارا لے کر نہ صرف جبراً انگریز سامراج انتظامی احکامات کی تکمیل کروا لیتی تھی بلکہ خوف کی فضا برقرار رکھنے میں بھی یہ قوانین معاون ثابت ہوتے تھے۔

توہین اور غداری کے قوانین کی آڑ میں چند طاقتور گروہوں اداروں اور شخصیات نے مقدس گائے کا درجہ حاصل کر لیا ہے

وقت بدلا اور انگریز سامراج کے خاتمے کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا۔ وطن عزیز کے قیام کے بعد بھی انگریز سامراج کے یہ کالے قوانین ایک آزاد و خود مختار ملک کے آئین کا حصہ آج بھی ہیں۔ توہین اور غداری کے قوانین کی آڑ میں چند طاقتور گروہوں اداروں اور شخصیات نے مقدس گائے کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ توہین عدالت سے لے کر توہین مذہب کے الزامات کی آڑ میں سیاسی و مسلکی مخالفین کو زیر کیا جاتا رہا جبکہ غداری اور ملک دشمنی کے الزامات کی آڑ میں ان آوازوں کو چپ کروایا گیا جو فکری و نظریاتی اقدار سے اختلاف رائے کرنے کی جرات کرنے کی جسارت کرتے آئے۔ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس عبدالحمید ڈوگر تک کے دور کی عدالتی تاریخ ہمارے وطن عزیز کی عدالتی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دور ثابت ہوا جس میں عدلیہ نے ہر آمر کے اقتدار کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ججوں کو گھروں میں قید کرنے والا آمر مشرف اس ملک کے عدالتی نظام کا مذاق اڑاتے ہوئے اطمینان سے بیرون ملک روانہ ہو جاتا ہے

افتخار چوہدری کے بعد جیوڈیشل ایکٹوزم کا ایک نیا دور شروع ہوا، جو کہ آج تک جاری و ساری ہے۔ حیران کن طور پر جیوڈیشل ایکٹوزم محض منتخب حکومتوں کے دور میں ہی نظر آتا ہے اور اس کا دائرہ کار محض سویلین اداروں کے احتساب تک ہی محدود رہتا ہے۔ ججوں کو گھروں میں قید کرنے والا آمر مشرف اس ملک کے عدالتی نظام کا مذاق اڑاتے ہوئے اطمینان سے بیرون ملک روانہ ہو جاتا ہے اور وہاں ایک پرتعیش زندگی گزارتا ہے۔ دوسری جانب کبھی یوسف رضا گیلانی اور کبھی نواز شریف کو عدالتوں سے نااہل کر دیا جاتا ہے۔ نواز شریف کا جرم ثابت بھی نہیں کیا جاتا اور اسے پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ ان فیصلوں یا متنازعہ عدالتی تاریخ پر کوئی تنقید نہ کرے اور عدالت کی جانب سے انصاف کی فراہمی کے برعکس عوامی منصوبوں میں دلچسپی پر آہ و بکا نہ مچے، خام خیالی ہی قرار دی جا سکتی ہے۔

وطن عزیز میں صرف سیاستدانوں پر ہی تنقید کرنےکی آزادی ہے

آزاد معاشروں میں کسی بھی شخص، جماعت یا ادارے کو مقدس گائے کا درجہ حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کو مذہب آئین یا حب الوطنی کے نام پر اجارہ داری یا تسلط قائم کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ والٹیر نے کہا تھا کہ اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ کون تم پر حکومت کرتا ہے تو تنقید کر کے دیکھو؛ جس پر تنقید کرنے کی اجازت نہ ہو تو سمجھ جاؤ وہی تمہارے اصل حکمران ہیں۔ اس قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو وطن عزیز میں صرف سیاستدانوں پر ہی تنقید کرنےکی آزادی ہے اور سزائیں بھی صرف سیاستدانوں کے ہی حصے میں آتی ہیں۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معاشرے کے کن طبقات، گروہوں اور اداروں پر تنقید کرنا کفر، غداری یا توہین کے زمرے میں آتا ہے اور ان قوانین کی ڈھال تلے دراصل وہ قوتیں ہیں جو وطن عزیز کی اصل حکمران ہیں۔

عدالتی فیصلے ہوں یا عوامی منصوبے اور حکمت عملیاں، یہ کبھی بھی غداری یا توہین کے قوانین کی ڈھال کے محتاج نہیں ہوا کرتے

معزز اداروں اور گروہوں کا تقدس اپنی جگہ لیکن ان پر اصلاح یا بہتری کی خاطر کی گئی تنقید کو جرم قرار دینے سے بذات خود ریاستی اداروں میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ عدالتی فیصلے ہوں یا عوامی منصوبے اور حکمت عملیاں، یہ کبھی بھی غداری یا توہین کے قوانین کی ڈھال کے محتاج نہیں ہوا کرتے اور اگر ان کو سچا ثابت کرنے کے لئے آرٹیکل چھ اور توہین عدالت کے قوانین کا سہارا لینا پڑے تو پھر اپنی کارکردگی کا از سر نو جائزہ لینے اور آئین کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے معزز عدلیہ کو صرف آئین کی تشریح کا جو مینڈیٹ حاصل ہے اسی پر کاربند رہنا چاہیے نہ کہ ایگزیکٹو بن کر ریاستی امور بھی خود سے چلانے کی ذمہ داری اپنے سر لینی چاہیے۔ ہم انگریز سامراج کے دور میں بسنے والے غلام یا ڈھور ڈھنگر نہیں ہیں مائی لارڈ جو زبانوں کو سی کر اور سوچنے سمجھنے کی حس کو دفن کر کے آرٹیکل چھ اور توہین عدالت کی لاٹھیوں کی مدد سے کسی بھی مسلط کردہ سمت میں ہانک دیے جائیں۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔