پاکستان نے چند روز قبل ہی دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دھائیوں پہلے سوچے جانے والا یہ منصوبہ مسلسل تناعات کا شکار رہا ہے۔ اور اب جب ائک بار پھر چھٹی بار اس منصوبے پر کام کا اعلان کردیا گیا ہے تو پھر سے تنازعات نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے ٹویٹر ٹرینڈز میں ٹاپ ٹرینڈ #NoDamOnIndusRiver کا ہے جس کے تحت دریائے سندھ پر بننے والے کسی بھی ڈیم کو ملک مخالف اور صوبوں کے کسانوں کے قتل کے مترادف قرار دیتے ہوئے دیا میر بھاشا ڈیم کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
https://twitter.com/AasimSajjadA/status/1261614884808261632
اگر اس ڈیم کے محل وقوع اور واٹرسورس کی بات کی جائے تویہ ڈیم دریائے سندھ پر تعمیر کیا جائے گا۔ ڈیم تربیلا ڈیم سے 315 کلومیٹر جبکہ گلگت بلتستان کے دارالحکومت گلگت سے 165 کلومیٹر اور چلاس سے 40 کلومیٹر دور دریائے سندھ کے نچلی طرف تعمیر کیا جائے گا۔ پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختوںخوا کے سرحدی علاقے بھاشا میں تعمیر کیا جانا ہے۔ اس کا کچھ حصہ خیبر پختوںخوا کے علاقے کوہستان میں جبکہ کچھ حصہ گلگت بلتستان کے ضلع دیا میر میں آتا ہے اور اسی وجہ سے اسے دیامیربھاشا ڈیم کا نام دیا گیا ہے۔
ڈیم کی بلندی 272 میٹر ہو گی۔ اس کے 14 سپل وے گیٹ تعمیر کیے جائیں گے۔ اس میں مجموعی طور پر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 8.10 ملین ایکٹر فٹ ہو گی۔ یہ 200 مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوگا جس میں 100 کلومیٹر کا شاہراہ قراقرم کا علاقہ بھی آئے گا۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے ٹویٹ کے ذریعے ڈیم کی تعمیر کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانیوں کو اس منصوبے سے 16500 نوکریاں جبکہ 4500 میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل ہو گی۔ انھوں نے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے آغاز کو بہت بڑی خوشخبری قرار دیا۔
تاہم اس ڈیم کی تعمیر کوئی کل پرسوں کا خیال نہیں بلکہ تین دہائیاں قبل کا ایک تصور ہے جس کی تعبیر کی راہ میں ہر وقت تنازعات نے شورش بپا رکھی اور یہ حقیقت نہ بن سکا۔
اس منصوبے کو سب سے پہلے 1988 میں سوچا گیا تھا۔ جب کہ اس کا سب سے پہلے افتتاح سنہ 1998 میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کیا تھا۔ سال 2006 میں اس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے ڈیم کی تعمیر کا دوبارہ اعلان کیا.اس موقع پر اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے ایک بار پھر ڈیم کا افتتاح کیا تھا۔ جبکہ بھاشا دیا میر ڈیم کا ایک اور افتتاح سنہ 2011 میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کیا تھا۔
اس کے گرد بننے والے تنازعات کی اگر بات کی جائے تو دیامیر بھاشا ڈیم کا ایک حصہ گلگت بلتستان میں تعمیر کیا جائے گا اور انڈیا طویل عرصہ سے گلگت بلتستان کے خطے پر اپنے حق کا دعویٰ کرتا چلا آرہا ہے۔
بی بی سی کے مطابق سنہ 2008 میں اس ڈیم کی لاگت تقریباً 12 ارب ڈالر تھی۔ اس خطیر رقم کو پاکستان اپنے وسائل سے فراہم نہیں کر سکتا تھا اس لیے توقع تھی کہ عالمی ادارے ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آغا خان نیٹ ورک سرمایہ فراہم کریں گے مگر ڈیم منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی بھارت نے منصوبے پر اعتراضات اٹھا دیے تھے۔
بھارت کے اعتراضات پر عالمی اداروں کی جانب سے ڈیم کی تعمیر کے لیے سرمایہ کاری عارضی طور پر روک دی گئی مگر سنہ 2012/13 میں اس وقت کی حکومت کی کوشش کے باوجود عالمی اداروں نے سرمایہ کی فراہمی بھارت کی طرف سے این او سی سے مشروط کر دی تھی۔
سنہ 2014 میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ عالمی ادارے ڈیم منصوبے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کو تیار ہیں مگر عملاً ایسا نہ ہو سکا۔ 2015 ہی میں حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنے وسائل سے ساڑھے پانچ ارب روپے کی رقم سے زمین حاصل کرنی شروع کر دی ہے تاہم مقامی متاثرین نے رقوم ملنے کی تصدیق نہیں کی تھی۔ سنہ 2016 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے باقاعدہ طور پر منصوبے کے لیے معاشی منصوبے کو منظور کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ سنہ2017 کے احتتام سے قبل اس منصوبے پر کام شروع کیا جائے۔سنہ 2017 میں چین کے ساتھ اس منصوبے کو سی پیک میں شامل کرنے پر بات ہوئی تھی۔ اس کے لیے باقاعدہ ٹینڈر بھی جاری کر دیئے گئے تھے مگر بعد میں اس ٹینڈر کو منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ اس منصوبے پر چین کی سخت شرائط قابل قبول نہیں تھیں۔
دریائے سندھ پر بننے والے کسی بھی ڈیم منصوبے پر صوبہ سندھ کے زمینداروں کا بڑا اعتراض سامنے آتا ہے اور اس وقت ٹویٹر پر بھی اسی تناظر میں بحث جاری ہے۔ جہاں صارفین کہہ رہے ہیں کہ سندھ کی زمینیں پہلے ہی پانی نہ ہونے کہ وجہ سے تباہ ہو چکی ہیں نیا ڈیم انہیں پانی سے مزید محروم کر دے گا۔ دوسری جاب ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کام کرنے والے کارکنان بڑے ڈیموں کو ماحول کے لئے تباہ کن قرار دیتے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں انہیں بڑے پیمانے پر انسانی آبادیوں کی منتقلی کے باعث انسان دشمن قرار دیتی ہیں۔ بین الاقوامی اعتراضات، فنڈنگ کے مسدود ذرائع اور سیاسی عدم اتفاق رائے کی موجودگی میں ایک بار پھر یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ آیا یہ متازع ڈیم اس بار بھی بن پائے گا یا نہیں۔