سیاست میں مذہب کا استعمال ریاست پاکستان کی اصل ریڈ لائن ہے

سیاست میں مذہب کا استعمال ریاست پاکستان کی اصل ریڈ لائن ہے
قحط الرجال کے موجودہ دور میں ایک عرصہ ہوا خاک کی کوکھ سے لیڈروں نے جنم لینا چھوڑ دیا ہے۔ مصلحتوں اور مفاہمتوں کے بیچ خالص نظریات اور تحاریک کے فقدان میں کوئی فرد واحد کسی نظریے، تحریک یا انقلاب کے راستے کی ڈیڈ لائن نہیں ہو سکتا۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے، شخصیت پرستی کا وہ ناسور جو آج لیڈرشپ کے قحط کی وجہ ہے، آج بھی ہماری ترجیحات کا محور ہے۔ مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ ملک میں لیڈرز کے نامیاتی ارتقا کے حامی بھی شخصیت پرستی کے دائرے میں نہ صرف خود گھوم رہے ہیں بلکہ اس کے مبلغ اور داعی بھی بنے بیٹھے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ نوجوان نسل نے جو 80 کی دہائی میں پیدا ہوئی، 90 کے اوائل و اختتام پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف برسر پیکار دیکھا بلکہ ایک دوسرے کو چور، کرپٹ، بد کردار اور غدار کے لیبلز سے بھی نوازتے دیکھا۔ میاں نواز شریف نے اپنے حامیوں کو یہ بتایا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری ملک دشمن ہیں، جبکہ محترمہ بے نظیر اور ان کے شوہر اس نسل کو یہ سمجھاتے رہے کہ نواز شریف امریکہ سے پیسے لیتے رہے، اسامہ بن لادن کی سہولت کاری سے حکومتیں بناتے رہے اور پاکستان کو نقصان پہنچاتے رہے۔

چور، کرپٹ، غدار، منافق اور اسلام دشمن جیسے نعرے سن کر بیسویں صدی میں داخل ہونے والی اس نسل نے دہشتگردی کے خوف، بم دھماکوں کی گونج اور خود کش حملوں کے مہیب سائے تلے بچپن سے جوانی تک کا سفر طے کیا۔ دہشت کی گرد چھٹتے ہی 90 کی دہائی کے وہی چہرے جب میثاقِ جمہوریت کے نتیجے میں اس نسل کے سامنے میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلنے لگے تو تختی اور سلیٹ سے نکل کر کمپیوٹر اور موبائل تھامنے والے ان نوجوانوں نے سوال اٹھانے شروع کر دیے کہ کیا ان کے نصیب میں کسی مداری کے بندر کی مانند دو ہی طرح کے نعروں کی گونج پر ناچنا لکھا ہے؟

ہیجان میں مبتلا یہ نوجوان اب پرانے نعروں کی تکرار پر استہزائیہ ردعمل دیتے ہوئے متبادل قیادت کی کھوج میں تھے۔ ایسے میں عمران خان کی شکل میں انہیں نیا چہرہ نظر آنا شروع ہوا۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی کے 20، 25 سال صرف دو چہرے ہی سیاسی قیادت کے نام پر دیکھے، عمران خان کو بوسیدہ سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا سمجھنے لگے۔ جب انصاف کی دیوی نے پہلے آمر، پھر سیاسی ایلیٹ کی قانون شکنی پر آنکھیں موندنا شروع کیں تو قنوطیت کا شکار ان نوجوانوں کو عمران خان نے بلا تفریق انصاف کی امید دلائی۔ اقتدار کی کرسی پر دو جماعتی میوزیکل چیئر کے انجماد کو عمران خان نے تحریک کی آنچ سے تحرک دے کر نوجوانوں کے سیاسی جمود کو توڑا۔ نتیجتاً 1990 سے 2010 تک 20 سال کے سیاسی ماحول سے سیاست سے متنفر نوجوانوں نے مینار پاکستان جلسے میں اپنے سیاسی شعور پر پڑی گرد کو صاف کرنا شروع کر دیا۔

عمران خان کی شکل میں نوجوانوں کو متبادل قیادت تو مل گئی، مگر 20 ویں صدی میں جنم لینے والی نسل نے اپنے کانوں میں چور، کرپٹ، غدار، منافق کی وہی گردان سننا شروع کر دی جس کا چرچا ان کے بڑے 80، 90 میں سنا کرتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے جہاں دو جماعتیں ایک دوسری پر الزامات لگایا کرتی تھیں، اب ان میں ایک اور جماعت کا اضافہ ہو چکا تھا اور یوں الزامات کے دور میں عمران خان کو صرف یہ فائدہ حاصل رہا کہ وہ ہنوز آزمائے نہیں گئے تھے۔

عمران خان کی بڑھتی مقبولیت میں اگر محلاتی سازشوں کے کردار کو پس پشت ڈال دیا جائے تو نوجوانوں کی عمران خان کے حق میں بڑھتی تعداد کی وجہ گزشتہ حکمرانوں سے ٹوٹی امیدوں کا غصہ تھا جو جوان خون میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ عمران خان نے اس غصے کا اپنے حق میں استعمال کیا اور نوجوانوں کو وہ سنایا جو وہ سننا چاہتے تھے۔ خان کا جادو چلتا رہا، شریف فیملی کے خلاف عدالتی کیسز نے نوجوانوں کے غصے کو اور بڑھا دیا اور یوں ایک بہترین سیاسی ماحول میں عمران خان مسندِ اقتدار پر براجمان ہو گئے۔

وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان کے حمایتی بھی بڑی تعداد میں یہ بات سمجھنا شروع ہو چکے تھے کہ اب ایک موقع دے کر آزمانے جیسی دلیلیں عمران خان کے دفاع میں نہیں چلنے والی۔ اب عمران خان کوبھی کارکردگی کے اُسی ترازو میں تولا جائے گا جس میں ان سے پہلے آنے والے سربراہان مملکت کو تولا جاتا رہا ہے۔ مہنگائی کے نئے ریکارڈ، قیمتوں میں اضافے، وعدوں اور دعوؤں کے برعکس کارکردگی کے سنگین مسائل اور اداروں پر ضرورت سے زیادہ انحصار جیسے عوام خان کی مقبولیت کو نقصان پہنچا ہی رہے تھے کہ عدم اعتماد کی تحریک اور اقتدار کی تبدیلی نے عمران خان کو ایک مرتبہ پھر عوام کو وہی باتیں سنانے کا موقع فراہم کر دیا جو وہ سننا چاہتے تھے۔

وقت کی ضرورت کہیں یا سیاسی مس کیلکولیشن، عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم کو اقتدار ملنے کے بظاہر فائدے کے مقابلے میں عملی طور پر شاید نقصان اٹھانا پڑا ہے اور عمران خان کو اقتدار چھوٹنے کے بظاہر نقصان کے مقابلے میں بے پناہ عوامی مقبولیت کی صورت میں فائدہ پہنچا ہے۔

عمران خان کے دعوؤں اور ان پر عمل درآمد میں تضاد، اداروں پر حد سے زیادہ انحصار اور دخل اقتدار کے بعد انقلاب کی باتوں پر سوالات سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ اب عوام میں تاریخی مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ حکومت انہیں سیاسی میدان سے ہٹانے کے لئے توشہ خانہ، ممنوعہ فنڈنگ، توہین عدالت اور دہشتگردی جیسے مقدمات کا سہارا لے تو رہی ہے مگر یوں لگ رہا ہے جیسے انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی پٹی شاید عوامی سمندر کو نہ دیکھ پائے، مگر اس کا شور ضرور سن رہی ہو گی۔

ایسے میں عمران خان کو راستے سے ہٹانے کے لئے حکومت کی جانب سے وہ قدم اٹھایا جا رہا ہے جو حقیقت میں ریاست پاکستان کی سالمیت کی ریڈ لائن ہے۔ عمران خان کے خلاف سیاسی منافرت کو ہوا دینے کے لئے مذہب کارڈ کا استعمال وہ ہتھیار ہے جو ملکی سیاست میں دہائیوں سے استعمال ہوتا آیا ہے۔ اس ہتھیار نے ماضی میں افسوس ناک واقعات کو جنم دیا جس نے معاشرے میں تشدد کے ماحول کو ایسی ہوا دی کہ شدت پسندی عالمی سطح پر ہماری پہچان بن کر رہ گئی۔

عمران خان کے بیانات کو استعمال کر کے انہیں توہین مذہب سے جوڑنے کا اندوہناک کھیل اگر پرتشدد واقعات پر منتج ہوا تو ہمارے شعوری و فکری سفر کا سست ارتقا رک کر سفرِ معکوس پر گامزن ہو جائے گا اور اس معکوس ارتقا کا انجام آنے والی کئی دہائیوں کی پستی پر منتج ہو گا۔ سیاسی منافرت میں دہشت گردی، غداری اور کفر و شرک کے فتوے وقتی سیاسی فائدہ تو پہنچا سکتے ہیں مگر ان کا پے در پے استعمال معاشرے کی فکری بُنت کو اندر سے اتنا کھوکھلا کر دے گا کہ کسی بھی سطح پر توہین مذہب کے الزام پر کسی بھی شہری کی جان لینا تصورِ جرم سے باہر ہوتا چلا جائے گا۔ ایسا تقطیب زدہ معاشرہ جس میں نظریات کا ٹکراؤ سنگین حد تک متضاد سِروں میں پہنچ جائے، صرف گھٹن زدہ فضا پیدا کر سکتا ہے جس میں اظہارِ رائے کی آزادی جان کی امان سے مشروط ہو کر رہ جاتی ہے۔

میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان یا عمران خان کو اپنی ریڈ لائن قرار دینے والے خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ قحط الرجال کے اس دور میں کوئی بھی فردِ واحد کسی بھی نظریے کی ریڈ لائن نہیں ہو سکتا۔ اگر ریاستِ پاکستان کو کھوکھلا کرنے والی کسی دیمک کی نشاندہی کرنی ہی ہے تو خدارا سیاسی دشمنی میں مذہب کے استعمال کی نشاندہی کیجئے۔ توہینِ مذہب کے الزامات وہ ریڈ لائن ہے جسے ماضی میں بھی کراس کرنے کی کوشش کی گئی اور ہم ترقی کے خواب دیکھتے رہ گئے۔ اب اگر پھر سے اس ریڈ لائن کو کراس کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا نقصان مملکتِ خداداد کو مزید تباہی کی صورت میں پہنچے گا۔ اس تباہی کا ذمہ دار کون کون ہے، یہ سوچنے کے لئے بھی شاید ہمیں حبس زدہ فضاؤں میں کوئی روزن نہ ملے۔

سعدالحسن ایک صحافی ہیں اور ہم نیوز میں بطور نیوز اینکر ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔