Get Alerts

'فیض آباد دھرنا کمیشن نے اصل نتائج پر پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی'

رانا ثناء اللہ کے مطابق اگر راجہ ظفر الحق کی انکوائری رپورٹ بروقت آ جاتی تو تحریک لبیک والے وعدے کے مطابق دھرنا ختم کر دیتے لیکن بدقسمتی سے یہ رپورٹ آج تک نہیں آ سکی۔ اس کے علاوہ مظاہرین میں پیسے بانٹںے کا عمل بھی غلط تھا۔

'فیض آباد دھرنا کمیشن نے اصل نتائج پر پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی'

تحریک لبیک کے احتجاج کے دوران تمام انٹیلی جنس ایجنسیز نے پنجاب حکومت کو رپورٹ دی تھی کہ اگر مظاہرین کو راولپنڈی جانے سے روکا گیا تو لاہور میں خون خرابہ ہو گا، بہتر ہے انہیں پنڈی آنے دیا جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی جائے۔ لیکن اُس وقت تک ذہن بن چکا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق فلاں فلاں صاحب مظاہرین کے خلاف آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ہوا یہ کہ آپریشن کرنے کے بعد بھی وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے والا مطالبہ ہی ماننا پڑا۔ فیض آباد دھرنا کمیشن نے صحیح نتائج پر پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ کہنا ہے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ کا۔

فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں فیض آباد دھرنا کی تمام تر ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد کی ہے اور قرار دیا ہے کہ دھرنا پنجاب حکومت کی انتظامی ناکامی تھی۔ جس وقت یہ دھرنا دیا گیا اس وقت پنجاب میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ تھے۔ جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ زاہد حامد خود استعفیٰ دینے پر تیار تھے لیکن اُس وقت تک ذہن بن چکا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق ٹی ایل پی مظاہرین کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔

دھرنے کی تمام تر ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد کیے جانے پر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک کے لوگوں کا ایک مطالبہ تھا جس کے لیے وہ اسلام آباد آنا چاہتے تھے۔ جب وہ لوگ لاہور میں اکٹھے ہوئے اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا فیصلہ کیا اس وقت تمام انٹیلی جنس ایجنسیز نے پنجاب حکومت کو رپورٹ دی تھی کہ اگر انہیں لاہور میں روکا گیا تو یہاں پر ہلاکتیں ہوں گی۔ بہتر ہے کہ انہیں اسلام آباد جانے دیا جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی جائے۔ تمام ایجنسیز کے مشورے پر افضل قادری سمیت ٹی ایل پی قیادت کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں یہ طے ہوا کہ وہ پرامن طریقے سے اسلام آباد تک جائیں گے اور وہاں جا کر دھرنا دیں گے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اس وقت حلف نامے میں تبدیلی کے معاملے پر جو کمیٹی انکوائری کر رہی تھی اس کی سربراہی راجہ طفر الحق کر رہے تھے۔ ٹی ایل پی والوں نے مطالبہ کیا کہ راجہ ظفر الحق کی جانب سے رپورٹ آ جائے اور جو لوگ ذمہ داران ٹھہرائے جائیں، ان کے خلاف کارروائی شروع ہو جائے تو ہم دھرنا ختم کر دیں گے۔ یا پھر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد وقتی طور پر استعفیٰ دے دیں۔ اس معاہدے کے تحت انہیں دھرنے کی اجازت دی گئی اور انہوں نے اس معاہدے کی پاسداری کی۔ مظاہرین کو اسلام آباد آنے میں 3 سے 4 دن لگے مگر راستے میں انہوں نے کسی قسم کی توڑ پھوڑ نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ ٹریفک کی روانی میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی تھی۔ 

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

رانا ثناء اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا خیال تھا کہ اسی دوران راجہ ظفر الحق کی جانب سے رپورٹ آ جائے گی، حکومت یہ رپورٹ تحریک لبیک والوں کو دے دے گی اور یوں یہ معاہدے کے مطابق دھرنا ختم کر دیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے راجہ ظفر الحق کی رپورٹ آج تک بھی نہیں آ سکی۔ اس کے علاوہ تحریک لبیک کے مظاہرین میں پیسے بانٹںے کا عمل غلط تھا اور اس وقت بھی اس کی شدید مذمت کی گئی تھی۔

پنجاب حکومت کی جانب سے ساری ذمہ داری وفاق پر ڈالنے کے سوال پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے، وفاقی حکومت سے اس بارے میں بات ہوئی تھی اور سب کا خیال تھا کہ ظفر الحق کی رپورٹ 3 سے 4 دن میں آ جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق اگر کسی کو قصوروار ٹھہرایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ ٹی ایل پی کا بھی یہی مطالبہ تھا۔ یہاں پنجاب ہاؤس میں سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر قانون زاہد حامد اور وزیر ریلوے سعد رفیق سمیت مختلف لوگوں کی ٹی ایل پی کے وفد سے میٹنگ ہوئی جس میں ٹی ایل پی قیادت نے مطالبہ کیا کہ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ آ جائے یا پھر تب تک وزیر قانون زاہد حامد استعفی دے دیں۔ رپورٹ میں اگر زاہد حامد بے قصور ثابت ہوئے تو حکومت انہیں دوبارہ وزیر قانون بنا سکتی، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ رانا ثناء اللہ کے مطابق اس وقت زاہد حامد خود استعفیٰ دینے پر تیار تھے لیکن ذہن بن چکا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق فلاں فلاں صاحب ٹی ایل پی مظاہرین کے خلاف آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی پنجاب حکومت اور ایجنسیز کی رائے تھی کہ آپریشن کے نتیجے میں اموات ہوں گی۔ جب دو سال بعد عمران خان کی حکومت کے دوران ٹی ایل پی نے دوبارہ احتجاج کیا اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تھے تب ان مظاہرین کو لاہور میں روکنے کی کوشش کی گئی تھی تو کیا یہ لوگ یہاں رک گئے تھے؟ نہیں رکے تھے۔ پھر لاہور میں اور راستے میں کتنا نقصان ہوا۔ تو ہماری حکومت کے دوران جب احتجاج ہوا تو اس وقت تحمل اور تدبر سے کام لیا گیا۔ یہ کوئی انتظامی ناکامی نہیں تھی، بلکہ فیض آباد دھرنا کمیشن نے صحیح نتائج پر پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے فیض آباد دھرنے میں ملوث ہونے کے سوال پر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس دھرنے سے متعلق جو بھی بات تھی وہ میں نے آپ کو بتا دی ہے، باقی فیض حمید یا مختلف ایجنسیوں کے اوپر ایسی تنظیموں کو پروموٹ کرنے یا اپنے کنٹرول میں رکھنے کے معاملات الگ ہیں۔ ایسی تنظیموں کو بنانے والے بنا کر ایک آدھا مقصد حاصل تو کر لیتے ہیں لیکن یہ بعد میں ان کے ہاتھ میں نہیں رہتیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ایل پی کا فیض حمید سے تعلق تھا اور وہ جنرل فیض کی مانتے بھی تھے۔ لیکن اس سارے معاملے میں یہ بھی نظر آٰیا کہ ٹی ایل پی پر جنرل فیض کا مکمل کنٹرول نہیں تھا۔ ٹی ایل پی والے اپنی بات پر اڑ بھی جاتے تھے اور ضد بھی کرتے تھے۔ انہوں نے جس معاملے پر دھرنا دیا تھا، اس میں بھی ٹی ایل پی کے لوگ پوری طرح فیض حمید کی بات نہیں مان رہے تھے۔