گذشتہ برس جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 18 اگست کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا تو پوری قوم کی پر امید نظریں ان پر مرکوز تھیں، اب جب کہ عمران خان کو وزیراعظم بنے ایک سال گزر چکا ہے تو یہ جاننا اہم ہے کہ یہ سال کتنا کامیاب رہا؟
2013 سے لے کر 2018 کے الیکشن ہونے تک عمران خان اور ان کی جماعت نے جہاں ایک جانب ماضی کے حکمرانوں پر سخت ترین تنقید کے تیر برسائے، تو وہیں ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی جماعت کو اس حیثیت میں پیش کیا جو برسر اقتدار آتے ہی صرف 90 دن میں ملک کے حالات تبدیل کر دے گی۔
لیکن کیا ایسا ہوا؟ پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار رضا رومی کے نزدیک پی ٹی آئی حکومت نے خارجہ محاظ پر اہم پیش قدمی کی ہے، بالخصوص امریکہ سے تعلقات میں بہتری لانا ایک اہم کامیابی تھی۔
'گذشتہ چند برسوں میں پاکستان اور امریکہ کہ تعلقات ابتری کی جانب مائل تھے لیکن اس حکومت نے ان تعلقات کو عمران خان کے حالیہ دورے کے بعد بڑی حد تک بہتر بنایا ہے۔ یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس کا کتنا سہرا عمران خان کو جاتا ہے اور کتنا پاکستان کی فوج کو ، لیکن وہ مل جل کر حکومت چلا رہے ہیں اس لیے یہ حکومت کی ہی کامیابی تصور کی جائے گی۔'
سنیئر صحافی رضا رومی کا مزید کہنا تھا کہ ان کے نزدیک حکومت کی سب سے بڑی ناکامی سیاسی استحکام کے لیے کوشش نہ کرنا ہے۔
رضا رومی نے کہا کہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ایک مٹھی بھر اکثریت کے ساتھ بنائی گئی حکومت ہے اور ان کے ساتھ دیگر مختلف قوتوں کی حمایت ہے، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومتی امور، بالخصوص سلامتی، خارجہ، داخلہ اور ٹیکس پالیسی جیسے معاملات کے لیے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی یہ ایک بڑی خامی رہی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر بھی گذشتہ سال کے انتخاب سے پہلے کا بیانیہ چلا رہی ہے اور پی ٹی آئی والے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن جیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومتی امور پر سنجیدہ نہیں ہیں۔