70 سال بمقابلہ 4 سال: 'ایک جماعت اٹھی ہے جو اپنے مطالبات کو منوائے بغیر اٹھتی نہیں'

70 سال بمقابلہ 4 سال: 'ایک جماعت اٹھی ہے جو اپنے مطالبات کو منوائے بغیر اٹھتی نہیں'






مجھ سمیت ملک بھر کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خواہ وہ تحریک لبیک کے حامی ہو یا مخالف انہوں نے اس بات پر زور دیا اور بارہا دہرایا کہ احتجاج کا طریقہ کار انتہائی نامناسب ہے۔ اس طرح سے ملک کو مفلوج کر لینا انتہائی غلط فعل ہے۔ مولانا فضل الرحمان ہوں یا سراج الحق یا مسلم لیگ نواز جنہوں نے تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے پر آواز اٹھائی کہ یہ عمل قابل قبول نہیں کہ احتجاج کی بنا کر کسی سیاسی جماعت کو کالعدم کیا جائے مگر اس بات پر کسی نے آواز نہیں اٹھائی یا تحریک لبیک کی حامی نہیں بڑھی کہ انہوں نے جو طریقہ اپنایا وہ درست ہے۔ 

مگر!

کچھ باتیں جو بہت اہمیت کی حامل ہیں وہ یہ کہ ہم نے دیکھا کہ تحریک لبیک کے بانی مرحوم علامہ رضوی ہوں یا موجودہ امیر و شوریٰ، اپنے معاملات میں بغیر مین اسٹریم میڈیا کی کوریج کہ اپنے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر پیغام دیتے ہیں اور ایک گھنٹے میں مختلف شاہراوں خصوصا بڑے شہروں کی داخلی خارجی شاہراوں کو بلاک کرتے ہیں اور ملک کو جام کر دیتے ہیں۔ جو کہ ان کی ایک احتجاجی تحریک کے کامیاب حکمت عملی ہے۔

ان کے احتجاج میں اہم بات یہ بھی ہمیشہ سے نظر آئی ہے کہ ان کو اگر مہینوں یا ہفتوں بھی بیٹھنا پڑے تو ان کے پاس کھانے پینے اور اشیاء ضروریہ کی کمی کبھی نہیں آئی۔ تحریک لبیک کے احتجاجوں اور دھرنوں میں کارکنان کو متوجہ رکھنے کے لئے بھی جوش گرما دینے والی یا سول نا فرمانی کے اعلانات پر مبنی بیان بازی بھی نظر نہیں آتی۔  سوائے ان کے ایک نعرے کے جو وہ ہمیشہ اپنے دھرنوں میں اسپیکر پر لگا کر رکھتے ہیں "لبیک یا رسول اللہ" یا "تاجدار ختم نبوت زندہ باد"۔ ان نعروں کی بنا پر ہزاروں کے ہجوم کو تحریک لبیک والے ہفتوں بیٹھائے رکھتے ہیں اور حیرانگی اس بات کی ہے کہ ہزاروں کا مجمع اٹھنے کو آخری وقت تک تیار نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ قیادت معاہدے کر لیتی ہے اور پھر کارکنان کو آ کر باقاعدہ معاہدے کی بنا پر اپنی جیت کا اعلان کرتے گھر جانے کی منت کرتی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ 2017 سے اب تک جب سے یہ جماعت وجود میں آئی اور اس نے احتجاج اور دھرنے دئیے ہیں چاہے وہ مسلح ہوں یا سخت زبان پر مبنی ہوں۔ انہوں نے ڈنڈے اٹھائے ہوں یا لاشیں رکھیں ہوں، ان کا ریکارڈ رہا ہے کہ اپنے مطالبات منوانے کے بنا جانے کو کبھی تیار نہیں ہوئے!


پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں ہم نے دیکھا کہ کیسے ایک نئی جماعت اٹھی ملک مفلوج ہوا اور وہ اپنے مطالبات منوا کر وفاقی وزیر قانون کو مستعفی کروا کر اپنے آپ کو سیاست میں رجسٹرڈ کروا گئی۔ پھر اس بار ہم نے دیکھا تو پاکستان میں اس بات کی چہ مگوئیاں ہوئیں کہ خان دباو میں نہیں آئے گا اور سخت ایکشن کر کے ان کو ختم کرے گا جس پر باقاعدہ کام ہوا بھی کہ ان کو کالعدم قرار دے دیا گیا فورتھ شیڈول میں نام ڈالا گیا اثاثے ، شناختی کارڈ ، پاسپورٹ منجمند کر دئیے گئے۔  مظاہرین پر سیدھی گولیاں برسائی گئیں۔ 6 دن میں قریبا 10 کے قریب افرد دنیا فانی سے کوچ کر گئے مگر مجال ہے کہ مظاہرین کی تعداد میں رتی بھر کمی دیکھنے کو ملی ہو۔ بلکہ باقاعدگی سے یہ تعداد چوک یتیم خانہ بڑھتی گئی۔ اب یہاں ایک بات اور دلچسب ہے کہ اس بار بھی تمام میڈیا ہاوسز کو ان کی کوریج پر مکمل پابندی تھی۔ مگر نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ان کے کارکنان کو گولیاں لگنے کے معاملات ہوں یا ان کے احتجاجی مظاہروں کی ویڈیوز تمام چیزیں وقت فوقتا پہنچتی رہیں۔

ٹویٹر پر ان سے منسوب 6 ہیش ٹیگ ہر ٹائم ٹاپ 20 میں رہے اور لاکھوں افراد کی ٹویٹس ان کے ان ہیش ٹیگز سے ہوتیں رہیں جن کا تذکرہ کل وزیراعظم عمران خان نے بھی کیا کہ قریبا 4 لاکھ کے قریب ٹویٹس کا جائزہ لیا گیا ہے۔

قصہ مختصر اس لئے کہ صرف 4 سال پہلے بنی اس سیاسی و مذہبی جماعت جس کو تمام اہل عقل کہلائے جانے والے افراد جتھے اور سیاسی جماعتوں نے سیاسی ناباکغ سمجھا متشدد اور انتہا پسند سمجھا بیوقوف اور انا پسند سمجھا اس جماعت نے ہر بار لاشیں دے کر ہی صحیح مگر اپنے مطالبات منوائے اس کے بغیر نا سودا ہوا نا کیا گیا۔

اب کی بار بھی وہ وزیر داخلہ جن کی زبان میں اتنی اکڑ تھی کہ وہ دو دن کہتے رہے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، ہم اب قرار داد نہیں لائیں گے، سب پر امن ہے کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے۔ ہم ایکشن کریں گے، ہم نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ ہم نے فورتھ شیڈول میں ڈال دیا ہے۔  ہم نے اثاثوں کو منجمند کر دیا ہے کل رات اور آج صبح بیٹھے ہاتھ میں پرچی لئے دھیمی آواز میں جیسے کوئی کلام پڑھا جا رہا ہو وہ بغیر کالعدم کا لفظ بولے فرما رہے تھے کہ تحریک لبیک سے معاہدہ ہو گیا یے۔ ہم آج ہی قرار داد اسمبلی میں لائیں گے۔ ہم فورتھ شیڈول کا خاتمہ بھی کریں گے۔


عام عوام سیاسی کارکنان سوال پوچھتے ہیں کہ آخر 70 سالوں سے ملک میں راج کرنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے تو ہمیشہ ذاتی مفاد سے متعلق سودا کر کے عوام کو مروایا بھی اور نچایا بھی مگر حاصل کبھی کچھ نا ہوا تو آخر یہ 4 سال قبل آنے والی جماعت کے پاس کون سے گیڈر سنگی ہے جو ہر بار یہ لوگ اپنے مطالبات کے بغیر اٹھتے نہیں؟ 

یہ تمام معاملات پاکستان میں عوامی ترجیحات کو سمجھنے اور سوچ و جذبات کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں۔









عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@