17 اگست کو قوم آم کو عظیم قرار دیتے ہوئے قومی دن کے طور پر مناتی ہے کیونکہ آمر ضیاء الحق سے نجات کا باعث آم Mangoسمجھے جاتے ہیں. یقینآ ایسا ہی ہے، غلط راستوں کے مسافروں کا انجام ایسا بنتا۔آمریت کے خاتمہ سے زیادہ خوشی کسی قوم کو نہیں ہو سکتی ہے۔تاہم ان سب حقائق کے باوجود آمر سے نجات کی خوشی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت کی طرف ہم سب نے کبھی غور نہیں کیا کہ ہمارے لئے تو آمر صفحہ ہستی سے مٹا تھا۔ وہ کسی کا باپ بھی تھا اس جوان بیٹے کا جیسے دنیا اعجاز الحق کے نام سے جانتی ہے اس ذہنی معذور بیٹی کا باپ جو زین ضیاء ہے۔ بیٹی تو ذہنی معذور تھی ہی۔ جوان جہان اعجاز الحق جو دنیا کے سامنے ایک سیاستدان ہے۔ نارمل انسان، جیسے ہمارے ووٹوں نے بار بار پارلیمنٹ تک پہنچایا، وفاقی وزیر بنایا۔ مگر اس سب کامیابیوں کے ساتھ اس کی زندگی کا ایک تاریک پہلو17 اگست کے حادثہ کے زیر اثر موت سے خوف زدہ،ایک احساس زیاں رکھنے والا کئی برسوں سے اسے ذہنی تناؤ کا شکار ظاہر کرتا۔ جس کی میں چشم دید گواہ ہوں۔ ضیاء الحق نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ آم اس کی موت کا سبب بن جائیں گے نہ یہ کہ اس کی موت ان کے بچوں کے ذہنوں پر ہمیشہ کیلئے انمٹ خوفناک نقوش ایسے چھوڑے گی کہ لمبا چوڑا بیٹا زندگی بھر اس اذیت کو کاٹے گا۔ کسی سے اس خوف کو بانٹ بھی نہیں پائےگا۔
یہ 2015 کی بات اسلام آباد سے ملتان پہنچنے کیلئے جب میں پی آئی اے کے جہاز میں داخل ہوئی تو میری نشت بزنس کلاس میں تھی وہاں تک جاتے ہوئے اچانک میری نظر نشست کے برابر براجمان اعجاز الحق اور ان کی بیگم پر پڑی۔ میری نظر میں وہ بھی مسافر تھے سو میں جاکر اپنی نشت پر بیٹھ گئی۔ اتنی دیر میں جہاز اڑنے کیلئے تیار ہونے اور سیٹ بیلٹ باندھنے کا اعلان ہوا تو برابر والی نشت پر براجمان اعجاز الحق کی جانب میں توجہ چلی گئی جنہوں نے اعلان ہوتے ہیں نوافل کی نیت باندھی اور آنکھیں زور سے بھینچ لیں۔ ساتھ ہیں با آواز بلند اللہ اکبر کی صدا لگائی۔ ان کے اس عمل سے میرے ذہن کے دریچوں میں ضیاء الحق کا حادثہ آیا ۔سفر کے آغاز سے لے کر اختتام تک اعجاز الحق کانپتے ہوئے آنکھیں بند کرکے نوافل پڑھتے ہوئے یہاں تک کہ ریفریشمنٹ کے وقت بھی انہوں نے آنکھیں نہیں کھولیں۔جیسے ہی جہاز کا ملتان ایئرپورٹ اترنے کا اعلان ہوا۔انہوں نے سکھ کا سانس لیا اور سلام پھیرا۔
ان کیلئے یقینآ باپ کے حادثہ کی موت کے بعد سے برسوں کا جہاز کے سفر کے دوران یہ معمول ہوگا۔ ضیآ الحق کی روح کیلئے مکافات عمل۔ تاہم بطور صحافی اور انسان میرے لئے ایک طرف ہمارے ملک میں آمرانہ اقدامات اور ان کے نسلوں پر اثرات کے ساتھ دوسری طرف سوچ کا مقام یہ بھی تھا کہ 21 صدی میں بھی ہمارے یہاں ذہنی تناؤ اور متواتر حادثات کے اثرات بیماری نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ ان مسائل پر توجہ ہی نہیں ہے۔