ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔
فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں ہوم سیکرٹری بلوچستان سے چمن باڈر پر ہونے والے 11 اگست کے حادثے، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے طالبعلمو ں کا کوٹہ ختم کرنے، صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے سارنگ جویو کے اغوا کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے سارنگ جویو کے اغوا کے معا ملے کا کمیٹی نے تفصیل سے جائزہ لیا۔ سارنگ جویو کے والد نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کل رات اُن کے بیٹے کو آزاد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اُن کے بیٹے کو ویرانے میں چھوڑا گیا اور تین ہزار روپے بھی دیے گئے، میرے بیٹے نے سندھی زبان کے فروغ اور سندھی ادب پر بہت کام کیا ہے اُن کے دفتر کو بند کر دیا ہے اور اُس کو نوکری سے فارغ کرنے پر دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے۔
تاج جویو نے کمیٹی کو بتایا کہ میرے بیٹے کی طرح دیگر کئی افراد کو بھی اغوا کیا گیا، جنہوں نے سندھ کے حقوق کے تحفظ پر آواز اٹھائی۔
چیئرمین کمیٹی نے تاج جویو کی ادب میں خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات کو صدر پاکستان نے حُسن کارکردگی بھی دیا تھا جسے احتجاجاً تاج جویو نے واپس کر دیا تھا۔
سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ کس کے حکم پر سارنگ جویو کے دفتر کو بند کیا گیا ہے، کمیٹی کو نوٹس لینا چاہیے اور چیئرمین گمشدہ افراد کمیشن کمیٹی میں کیوں نہیں آئے اس کا بھی نوٹس لیا جائے، جس پر رجسٹرار گمشدہ افراد کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ چیئرمین کی آنکھوں کی سرجری ہونی ہے یا ہونے والی ہے اور دوسری بات سابق صدر آصف زرداری کی پیشی کی وجہ سے چیئرمین کمیشن کی موومنٹ کو سیکورٹی کا خطرہ بھی ہے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھرنے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب وزیراعظم پاکستان پارلیمنٹ کو جواب دہ ہیں اور کوئی بھی شخص یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں ہے تو چیئرمین کمیشن کمیٹی اجلاس میں کیوں نہیں آئے، سیکورٹی کا سب سے زیادہ خطرہ پارلیمنٹرین کو ہوتا ہے۔
فنکشنل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ گمشدہ افراد کے مسئلے کے حوالے سے فنکشنل کمیٹی تمام صوبوں کا دورہ کر کے متعلقہ حکام کے ساتھ گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے لائحہ عمل اختیار کرے گی۔
سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پہلے بھی 153 افراد کو اٹھایا گیا تھا، کمیٹی اجلاس میں اُس کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور اُس کی کاپی چیئرمین گمشدہ افراد کمیشن کو بھی بھیجی گئی مگر کسی پر کوئی ذمہ داری فکس نہیں کی گئی۔
چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ جب سے گمشدہ افراد کمیشن بنایا گیا ہے گمشدہ افراد کے حوالے سے ذمہ داری فکس نہیں کی جا سکی۔ کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں مزید تفصیلات سے آگاہ کر دیا جائے گا۔
سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ گمشدہ افراد کے حوالے سے کمیشن کمیٹی کو مکمل ڈیٹا فراہم کر ے تاکہ جائزہ لے کر حکمت عملی اختیار کی جا سکے، گمشدہ افراد کے کیسز کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے تاکہ پیشرفت بارے بھی آگاہی ملتی رہے۔
قائمہ کمیٹی کو انسانی حقوق کی کارکن اور اپنے لاپتہ شوہر کے لئے گذشتہ پندرہ سال سے آواز اُٹھانے والی آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ ان کے پاس تین ہزار گمشدہ افراد کا ایک کتابچہ ہے اور ان لوگوں کا کوئی پتہ نہیں لگ رہا ہے کہ وہ کدھر ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے شوہر گذشتہ پندرہ سال سے لاپتہ ہیں اور اب انھوں نے ریاستی اداروں سے درخواست کی ہے کہ اگر وہ اس دنیا میں نہیں تو ان کے قبر کے بارے میں بتایا جائے تاکہ میں اور میرے بچوں کو سکون ہوجائے۔
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے طالبعلمو ں کا کوٹہ ختم کرنے کے حوالے سے وائس چانسلر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ڈاکٹر منصور احمد کنڈی نے کمیٹی کو بتایا کہ بلوچستان اور فاٹا کے طالبعلموں کی سیٹوں کو ختم نہیں کیا گیا، موجودہ سال سے اب فیسیں وصول کی جائیں گی۔ پہلے سے رجسٹرڈ بچے 2023 تک مفت تعلیم اور مفت ہاسٹل کی سہولت حاصل کریں گے۔ ادارے کو مالی مسائل کا سامنا ہے اب بچے آن لائن درخواستیں دیں گے، زیادہ تر لڑکیوں نے شکایت کی ہے کہ نومینیشن میں مسئلہ آتا ہے، صوبہ پنجاب اور بلوچستان کی حکومت نے 27 کروڑ کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔
سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے معاملہ سینیٹ میں اٹھایا تھا، بہتر یہی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو طلب کر کے تفصیلات حاصل کی جائیں، جس پر فنکشنل کمیٹی نے ایچ ای سی سمیت ایچ ای ڈی کے حکام کو طلب کر لیا تاکہ معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے کہ کس طرح احساس پروگرام کے ساتھ بچوں کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔
کمیٹی اجلاس میں چمن باڈر پر ہونے والے 11 اگست کے حادثے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا، جس پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری حافظ عبدالباسط نے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وبا کی وجہ سے چمن باڈر کو 2 مارچ سے بند کر دیا گیا تھا، مقامی لوگوں کے آدھے رشتہ دار باڈر کے دوسری طرف بھی رہتے ہیں، اُن کے کاروبار بھی وہی ہیں۔ باڈر بند ہونے کی وجہ سے لوگوں نے احتجاج کیا اور قرنطینہ سینٹر کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔ عید کے روز دونوں اطراف لوگوں کا رش بڑھ گیا کچھ لوگوں نے شرارت سے پتھر پھینکے اور زبردستی گیٹ کھولنے کی کوشش کی گئی اور فائرنگ ہونے کی وجہ سے پانچ لوگ شہید اور 19زخمی ہوئے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک میٹنگ بلائی تھی جس میں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی تھی اُن کے 99 فیصد مطالبے پورے کئے گئے، صرف ایک مطالبہ کہ باڈر فوری کھولا جائے کو نہیں مانا گیا۔
سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ پہلے شناختی کارڈ دیکھا کر لوگ آ جا سکتے تھے، اب ویزا لے کر جانا ہو گا انہوں نے کہا کہ ایف سی نے فائرنگ کی جس میں پانچ لوگ شہید اور 41 زخمی ہوئے تھے۔ یہ مسئلہ وفاقی حکومت اور ایف سی کا ہے، وزارت داخلہ اس حوالے سے کمیٹی کو بریف کرے۔
چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کو 15 لاکھ فی کس اور زخمی کو 2 لاکھ کی امداد کی سمری بنا کر وزیراعلیٰ کو بھیجی گئی ہے۔
سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیٹی جب کوئٹہ کا دورہ کرے تو چمن کا دورہ کر کے لوگوں اور متعلقہ اداروں سے معلومات حاصل کرے۔ قبائلیوں کی آسانی سے باڈر کراسنگ کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا گیا تھا، وزارت خارجہ اور سابق سفیر بیرسٹر صادق کو بھی چمن دورے کے دوران طلب کر کے اُس معاہدے کے حوالے سے معلومات حاصل کی جائیں اور معاملے کی جو ڈیشل انکوائری بھی ہونی چاہئے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وہ جوڈیشل انکوائری کے حوالے سے مطالعہ کرتے ہیں کہ کمیٹی کیا اختیارات رکھتی ہے کہ جوڈیشل انکوائری کی سفارش کر یا وزیراعلیٰ بلوچستان کو خط لکھا جائے۔