جنرل مشرف کو 2007 ایمرجنسی کیس میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں کسی فوجی آمر کو عدالت کی جانب سے آئین توڑنے پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے فوج کی جانب سے فیصلے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف سے پہلے بھی تین فوجی آمر گزرے ہیں جنہوں نے اس ملک پر بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے 1958 میں اقتدار پر قبضہ کیا اور 1956 کے آئین کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ 1962 تک ملک کا آئین مارشل لا ہی تھا۔ 1962 میں جنرل ایوب نے اپنا ذاتی آئین ملک پر مسلط کر دیا۔ اقتدار پر قبضے کے بعد جنرل ایوب ابتدا میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے اور پھر خود کو صدر قرار دے دیا۔ اس وقت پاکستانی فوج کے سربراہ کو کمانڈر انچیف کہا جاتا تھا۔ لیکن ایوب خان نے صدارتی اختیارات رکھتے ہوئے آرمی چیف کی ذمہ داریاں جنرل موسیٰ خان ہزارہ کے حوالے کیں اور خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی۔ ان کے خلاف ریاست بمقابلہ ڈوسو کیس میں جسٹس منیر کی عدالت نے نہ صرف اقتدار پر قبضے کو انقلاب قرار دیا بلکہ اسے آئین کی عملداری یقینی بنانے کے لئے ایک لازمی فیصلہ قرار دیا۔
اسے بلاشبہ ملکی تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے میں غیر معروف قانونی حوالے دیے گئے اور چھوٹے چھوٹے ممالک کی عدالتوں اور سیاسی حالات سے ایسے ایسے دلائل مستعار لیے گئے جنہیں مہذب دنیا میں قابلِ اقتباس نہیں سمجھا جاتا۔
https://www.youtube.com/watch?v=8clxLks64t0
جنرل ایوب خان نے استعفا دیا تو آئین کے مطابق استعفا سپیکر قومی اسمبلی کو نہیں بلکہ اپنے ہی بنائے آئین سے انحراف کرتے ہوئے یہ استعفا آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو تھما دیا۔ یحییٰ خان کے اقتدار کے دوران ہی ملک دولخت ہوا۔ گو کہ یہ ملکی تاریخ کا بدترین حکومتی دور سمجھا جاتا ہے، اس کے خلاف بھی عاصمہ جیلانی کیس میں فیصلہ آیا تو جنرل یحییٰ کے خلاف مگر تب تک وہ اقتدار سے علیحدہ ہو چکے تھے۔
انہی عدالتوں نے جنرل ضیا الحق کے اقتدار پر قبضے کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اسے آئین کے اندر اپنی مرضی کی ترامیم کرنے کی بھی مکمل اجازت دے دی۔ اور اسی وجہ سے جنرل ضیاالحق 11 سال تک اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ بعد ازاں اعلیٰ عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک کمزور کیس کی بنا پر پھانسی کی سزا بھی دے دی۔
جنرل مشرف کا دورِ اقتدار اس حوالے سے مختلف ہے کہ ان کی آمریت کے آخری سال میں انہیں اعلیٰ عدلیہ سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 12 اکتوبر 1999 کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جنرل مشرف نے بھی ماضی کی طرح ان ججز کو عہدے سے ہٹا دیا جن سے ان کو خدشہ تھا کہ وہ ان کے فوجی انقلاب کو ناجائز قرار دیں گے۔ وقت کی ستم ضریفی دیکھیے کہ انہی پی سی او ججز میں سے ایک افتخار محمد چودھری بھی تھے جو چند برس بعد چیف جسٹس بنے تو جنرل مشرف نے انہیں نکالنے کی کوشش کی اور وہ ڈٹ گئے۔ یہی فیصلہ تھا جس نے مشرف کے خلاف وکلا تحریک شروع کروائی اور اس تحریک نے مشرف کو چند ہی ماہ کے اندر اتنا کمزور کر دیا کہ سابق آمر کو سابق وزرائے اعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس آنے کی اجازت دینا پڑی۔
بینظیر بھٹو کو تو قتل کر دیا گیا لیکن 2008 میں ہونے والے انتخابات میں شکستِ فاش کے بعد جنرل مشرف کو اقتدار سویلینز کے حوالے کرنا پڑا۔ آصف زرداری اور نواز شریف نے جنرل مشرف کو ایوانِ صدر سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور ان کے خلاف سنگین غداری کیس اور بینظیر بھٹو قتل کیس چلتے رہے۔ کئی سال مقدمات چلنے کے بعد بینظیر بھٹو قتل کیس میں تو ان کو بریت مل گئی لیکن سنگین غداری کیس میں انہیں عدالت نے سزائے موت سنا دی ہے۔
اس مقدمے کو رکوانے کے لئے کیا کیا نہیں کیا گیا؟ نواز شریف حکومت نے کیس شروع کیا تو اس کے خلاف دھرنے کروائے گئے، جنرل مشرف کا کمر درد بار بار انہیں مجبور کرتا رہا کہ وہ عدالت جانے سے پرہیز کریں۔ عمران خان حکومت کے دوران اس کیس کے فیصلے کا وقت قریب آیا تو یکایک استغاثہ کی پوری ٹیم ہی تبدیل کر دی گئی۔ اس کے بعد بھی فیصلہ 26 نومبر کو سنائے جانے کا اعلان کیا گیا تو حکومت نے خود عدالت میں درخواست دی کہ مقدمے میں آئین میں درج طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا ہے لہٰذا اس کا فیصلہ روکا جائے۔ لیکن عدالت نے ان گذارشات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، صرف تین ہفتے بعد 17 دسمبر 2019 کو جنرل مشرف کو سزائے موت سنا ڈالی۔
مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ نے بھی فیصلے کو چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا عدالتیں ایک بار پھر اپنی تاریخ دہراتے ہوئے طاقتور کے آگے سر جھکا دیں گی، یا پھر قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے آئین کے مطابق فیصلہ دیں گی۔