فلم"ماہِ میر" پاکستانی سنیما کا چہرہ، جسے دنیا بھر میں فخر سے پیش کیا جاسکتا ہے

فلم
دنیا بھر میں فلم سازی ایک سنجیدہ کام سمجھا جاتا ہے اور اہل دانش اس کام سے وابستہ ہوتے ہیں ،جہاں فلم سازی ہوتی ہے وہاں کی حکومتیں فلم سازوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی ہیں جبکہ فلم سازی کی صنعت کو جدید آلات فراہم کرتی ہیں۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت دنیا میں سب سے زیادہ فلمیں بنانے والا ملک ہے، جہاں بیک وقت 5 بڑے فلمی مراکز قائم ہیں جہاں ممبئی میں اردو ہندی، حیدرآباد میں تیلگو، چنائی میں تامل ،بنگلور میں کناڈا اور کولکتہ میں بنگالی بھاشا میں فلمیں بنتی ہے۔ اسکے علاہ مالالیم پنجابی بھوج پوری اور انگریزی زبان میں سالانہ 450 سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوتی ہیں۔ ان انڈسٹریز کی حکومتی سطح پر بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، وہاں فنکار اوتار کا درجہ رکھتے ہیں اور اکثر الیکشن بھی لڑتے ہیں اور جیت کر لوک سبھا کے رکن بن جاتے ہیں۔ دوسری جانب ہر حکومت فنکاروں کو راجیہ سبھا کا ممبر بھی نامزد کرتی ہیں۔

ہماری بدقستمی ہے کہ پاکستان میں فلسازی کی کبھی بھی بھی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کی گئی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ حوصلہ شکنی کی جاتی رہی ہے۔ یہاں جس قدر بھی فلسازی ہوئی وہ اپنی مدد آپ کے تحت ہوئی، لاہور روایتی فلمی مرکز تھا جو اب حکومتی عدم توجہ اور فلم سازوں کی جہالت کے باعث ختم ہو چکا ہے۔ کراچی کے چند سرپھرے فلم سازی کر رہے ہیں، انہی میں سے ایک انجم رشید ہیں جنہوں نے تین سال قبل ایک فلم ماہِ میر کے نام سے بنائی تھی جو باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی اور صرف ڈھائی کروڑ روپے کما سکی۔

اس فلم کی لاگت چار پانچ کروڑ تک ہے، یہ فلم اردو ادب کے عظیم ترین شاعر میر تقی میر کی زندگی پر مبنی ہے، فلم کا سکرپٹ معروف شاعر ڈرامہ نگار سرمد صہبائی نے لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے۔ اس فلم کو اب تک یو ٹیوب پر 3 ملین افراد دیکھ چکے ہیں، امید ہے فلم کے تین فلم سازوں ساحر رشید،بدر اکرام،اور خرم رانا نے اپنا سرمایہ پورا کر لیا ہو گا۔

اس فلم کا مرکزی کردار فہد مصطفیٰ نے ادا کیا ہے اور شاید یہ انکی زندگی کا ناقابل فراموش کردار ہے، اس سے قبل وہ ایک اور فلم 'ایکٹر ان لاء' میں بھی شاندار ادکاری کر چکے ہیں۔ دیگر کرداروں ایمان علی اور منظر صہبائی نمایاں ہیں۔ فلم کے سکرپٹ رائٹر سرمد صہبائی چونکہ خود بھی شاعر ہیں لہذا انہوں نے ایک عظیم شاعر میر تقی میر کی زندگی کا خوبصورت احاطہ کیا ہے، فلم کی کہانی دو ادوار پر ہے ایک کراچی کا ادبی اور صحافتی منظر نامہ اور دوسرا میر تقی میر کی زندگی ان کا عشق۔

دورِ حاضر کے ادبی منظر نامے میں فہد مصطفیٰ نے ایک شاعر اور صحافی کا کردار اور قدیم عہد میں میر تقی میر کا کردار خوب نبھایا ہے۔ میر تقی میر کو اپنے اندر خوب سمویا ہے، ایمان علی بھی دونوں ادوار میں میر تقی میر کی محبوبہ جو نرتکی ہوتی ہیں اور عہد حاضر جدید شاعر اور صحافی کی محبوبہ بنی ہیں وہ فلم میں بہت خوبصورت لگی ہیں۔ ادکاری بھی اچھی کی تاہم ٹی وی کی ادکارہ ہونے کے باعث گانوں کی عکس بندی کے دوران لپ سنگنگ میں مات کھا گئی ہیں۔

منظر صہبائی نے ادبی ناقد کا کردار بہت خوبصورت طریقے سے ادا کیا ہے وہ اس کردار میں اتر گئے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے وہ واقعی ادبی ناقد ہیں ،جیسا کہ سطور بالا میں لکھا گیا کہ سرمد صہبائی نے فلم کے سکرپٹ میں میر تقی میر کو زندہ و جاوید کر دیا ہے۔ جیسا گلراز نے مرزا غالب کو کیا تھا۔سکرپٹ کی سب سے دیدہ زیب بات میر کی وحشت اور دیوانگی کو بیان کرنا ہے اور پھر سکرپٹ میں میر تقی میر کے اشعار کا چناؤ اور اس کو کہانی کے ساتھ جوڑنا لاجواب ہے۔

انجم رشید کی ہدایت کاری قابل تعریف ہے انہوں نے بہت محنت سے فلم شوٹ کی ہے تاہم مجرے کی عکس بندی کے دوران رقاصہ کا انتخاب ٹھیک نہیں، وہ کلاسیکل رقص سے انصاف کرتی نظر نہیں آتی،سنیر ادکارہ ہما نواب کا کردار کم مگر زور دار ہے ،حرف آخر ماہ میر پاکستانی سنیما کا پر وقار چہرہ اس فلم کو دنیا بھر میں کسی بھی فلم کے سامنے فخر سے پیش کیا جاسکتا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔