Get Alerts

رمضان اور ٹی وی نشریات کی بہار ، فہد مصطفیٰ  نے ہر بار کی طرح میلہ لوٹ لیا

رمضان اور ٹی وی نشریات کی بہار ، فہد مصطفیٰ  نے ہر بار کی طرح میلہ لوٹ لیا
رمضان آئیں اور ٹی وی چینلز اس حوالے سے نشریات نہ پیش کریں، جناب ایسا تو ہوہی نہیں سکتا۔ جبھی اس بار بھی ہر چینل نے ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کازور لگادیا۔ ہر طرح کا انداز اختیار کیا گیا، فلمی ستاروں کی محفلیں حسب روایت سجائی گئیں۔  وہ اداکار جو سارا سال تھرکتے تھرکتے تھکتے نہیں تھے ، وہ نیا  روپ دھا ر کر ٹی وی اسکرین پر ایمان کو تازہ کرتے ہوئے نظرآئے۔ پاکستان میں جب سے ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی ہے، دیکھا یہی گیا کہ رمضان کے ’سیزن‘ میں اشتہارات کے حصول کے لیے چینلز ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے ہر حربے کو استعمال کرتے ہیں۔ ریٹنگ کی اس دوڑ میں اکثر و اوقا ت اخلاقیات کی ساری حدیں پار کرنا تو جیسے اب عام سی بات ہوگئی ہے، بلکہ اگر ایسا نہ ہو تو خود رمضان کے ان میزبانوں اور مہمانوں کو عجیب عجیب سا لگتا ہے۔ بہرحال اس بھیڑ چال میں کچھ میزبان ایسے بھی ہیں، جو اپنی منفرد، برجستہ اور بے ساختہ انداز میزبانی کی وجہ سے عوام میں پذیرائی حاصل کرتے ہیں۔ ان میں بلاشبہ فہد مصطفی کا نام نمایاں ہیں۔ جنہوں نے حالیہ برسوں میں اپنے ہم عصر میزبانوں کو یہ باور کرایا ہے کہ دلوں میں جگہ بنانے اور راج کرنے کے ہنر کے لیے کس طرح کا اندا ز اختیار کیا جائے۔

ہر سال کی طرح اس بار بھی پھر فہد مصطفی‘’ جیتو پاکستان‘ کے ذریعے چھائے رہے۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ وہ رمضان کے پروگراموں کے ’بے تاج بادشاہ‘ ہیں۔ جن کی میزبانی میں اپنائیت کا پہلو نمایاں رہتا ہے جبکہ کسی بھی مرحلے پر  بازاری انداز سے دور ہی رہتے ہیں۔ گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی ’ جیتو پاکستان لیگ‘ کا اہتمام ہوا۔ جس میں ہمایوں سعید، عدنان صدیقی، شائستہ لودھی، شعیب ملک، اعجاز اسلم اور ثنا جاوید کی ٹیمیں بنا کر مقابلے ہوئے۔ ’جیتو پاکستان‘ میں حصہ لینے والوں پر بھاری اور قیمتی انعامات کی بارش ہونا تو عام سی بات ہے۔ پروگرام کی یہ بھی خاصیت کہی جاسکتی ہے کہ اس میں صرف اعلان کی حد تک انعامات نہیں دیے جاتے بلکہ عملی طور پر بھی مہمانوں کو خوش کیا جاتا ہے ۔ جبھی تو  اس شو کو سب سے زیادہ  سراہا جاتا  ہے۔ ’جیتو پاکستان‘ میں پاکستان کے شہرت یافتہ فنکار، کھلاڑی اور گلوکار ہنسی خوشی شرکت کرتے نظر آئے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی فہد مصطفی نے رمضان کا میلہ لوٹ لیا۔

دوسری جانب ’اے آر وائے‘ کے وسیم بادامی کے پروگرام ’شان رمضان‘ نے بھی خوب رنگ جمایا۔ وسیم بادامی نے صرف افطار ہی نہیں سحری کی نشریات میں بھی اپنے مخصوص انداز میزبانی خوب کی۔ بہرحال اس ضمن میں ’اے آر وائے‘ کو اس پہلو پر بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کب تک‘ ’پیچھے تو دیکھو فیم‘ احمد شاہ کا استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ اب محسوس ہورہا ہے کہ احمد شاہ کی معصومیت میں بھی اداکاری کا پہلو پوشیدہ رہتا ہے۔

’ہم ٹی وی‘ نے اس بار رمضان نشریات تو پیش نہیں کی، البتہ منی ڈراما سیریل ’چپکے چپکے‘ نے ریٹنگ کے کئی نئے ریکارڈ تخلیق کیے۔ دلچسپ کہانی اور چٹ پٹے ڈرامائی موڑ کی وجہ سے عائزہ خان، عثمان خالد بٹ، علی سفینہ سمیت دیگر ستاروں کے کام نے خاصی دھوم مچائی۔ بالخصوص عائزہ خان کی مزاحیہ اداکاری کا تو چرچا، اسی بنا پر سوشل میڈیا پر بھی ’چپکے چپکے‘ چھایا رہا، عائزہ خان جو اس سے قبل سنجیدہ اور المیہ اداکاری دکھا چکی ہیں، ان کی مزاحیہ اداکاری پر بے مثل رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صائمہ اکرم چوہدری کے لکھے ہوئے اس ڈرامے کی ڈائریکشن دانش نواز نے دی تھی اور ایک بار پھر انہوں نے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے فنکار ہی نہیں ہدایتکار بھی ہیں۔

’چپکے چپکے‘ کی طرح ’ہم ٹی وی‘ کا ’تانا بانا‘ بھی ناظرین میں مقبولیت کی سندحاصل کرگیا۔ افطار کے فوراً بعد نشر ہونے والے اس سٹ کام میں ہر اداکار نے لوٹ پوٹ کرتی اداکاری دکھائی۔ جبکہ اس کے چلبلے جملوں نے کھکھلا کر رکھ دیا۔

’جیو ٹی وی‘ نے اس سال رمضان نشریات پیش کرنے سے خود کو دور رکھا۔ البتہ اصلاحی کہانیوں پر مبنی ’دکھاوا‘ کو پذیرائی ملی۔ جیو نے ’احساس رمضان‘ کے تحت ترک ڈراما سیریل ’عثمان غازی‘ کے پہلے سیزن کو اردو میں ڈب کرکے نشر کیا لیکن ’ارطغرل‘ کے برعکس یہ  ایکشن ایڈونچر تاریخی تخلیق جیسے رمضان نشریات میں کہیں کھو سی گئی۔

کسی زمانے میں عامر لیاقت، رمضان نشریات کے وہ میزبان ہوتے، جنہیں بھاری بھرکم معاوضے پر کوئی بھی چینل حاصل کرتا اور اشتہارات کی مد میں کروڑوں روپے کمالیتا  لیکن اب ان کا جادو دھیرے دھیرے اپنا اثر کھوتا جارہا ہے۔وہ میزبان جو رمضان کی جان تصور کیا جاتا۔ اب اس کی مقبولیت اور شہرت ماند پڑتی جارہی ہے اور نظر یہی آتا ہے کہ خود عامر لیاقت کو بھی اس کا احساس ہے۔ اسی لیے وہ اپنے عمل اور حرکات سے کچھ ایسی حرکتیں کرتے ہیں، جنہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔  پچھلی بار عامر لیاقت، پی ٹی وی سے منسلک تھے تو اس بار ’ایکسپریس انٹرینٹمنٹ‘ سے ان کی جادوگری کا کھیل چلتا رہا۔ ’پیارے رمضان‘ کے نام کے ساتھ وہ افطار تک ایمان افروز گفتگو کرتے اور پھر ’جیوے پاکستان‘ شروع ہوتا تو ان کے اندر کا فن کار جو دبکا بیٹھا ہوتا، اچانک جاگ اٹھتا، جبھی تو اس بار وہ کبھی ناگن ڈانس دکھاتے رہے تو کبھی دوڑ کو ریٹنگ کی دوڑ سمجھ کر بھاگتے ہوئے منہ کے بل جا گرے۔

عامر لیاقت کے مقابلے پر رہے ساحر لودھی، ٹی وی ون سے ’نور رمضان عشق رمضان‘ پیش کرتے رہے اور ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘ کے مصداق جون ایلیا کا غلط شعر پڑھ کر ’بدنامی والی شہرت‘ حاصل کرگئے۔ ساحر لودھی پر خوب لعن طعن ہوئی لیکن انہیں کوئی فرق اس سے پہلے پڑتا تھا اور ناا ب پڑا۔ اسے مہذبانہ انداز میں  غالباً  ’ثابت قدمی‘ کی کہا جاسکتا ہے۔

رمضان نشریات کی اس دوڑ میں ’آج نیوز‘ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ جس نے فلم اسٹار ریما خان اور فرحان علی وارث کے ساتھ ’باران رحمت‘ پیش کیا۔ جبکہ ان کی معاونت صدف اقبال اور عمران عباس بھی مختلف سیگمنٹس  کے ذریعے دیتے رہے۔ ’آج انٹرنٹمنٹ‘ پر عمران عباس نے ترکی پہنچ کر ’ارطغرل‘ کے مختلف اداکاروں کے ساتھ گفتگو بھی پیش کی۔ ان ترک فنکاروں کی باتوں کو اردو میں ڈبنگ کے ساتھ نشر کیا گیا۔

سابق نیوز کاسٹر رابعہ انعم کی خدمات پی ٹی وی نے حاصل کیں۔ ’ رمضان پاکستان‘ میں رابعہ انعم کے ساتھ احسن خان نے دوسروں کو زیر کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ’ جیو نیوز‘ اور ’سما‘ نے اپنی صبح کی نشریات کو شام میں منتقل کردیا۔ جبکہ ’قطب آن لائن‘ میں بلال قطب نے ’خدا کی قسمیں‘ کھانے کے علاوہ نم آنکھوں  اور رونے دھونے کے ساتھ کئی مواقع پر عامر لیاقت اور ساحر لودھی کو پیچھے چھوڑنے کی ناکام کوشش بھی کی۔

پاکستان کے نمبر ون چینل کا دعوے دار ’ بول نیٹ ورک‘ نے بھی رمضان نشریات کی اس دوڑ میں خو ب حصہ ڈالا۔ ’ رمضان میں بول‘ ڈاکٹر فضا علی اور اسامہ غازی کا تحفہ تھا۔ جبکہ دانش تیمور ’ایسے چلے گا‘ اور فیصل قریشی ’خوش رہو پاکستان‘ کے ذریعے اچھل کود کا عجیب و غریب  کا تماشا لگاتے رہے۔ جس میں سوشل میڈیا پرنظر آنے والے لڑکے اور لڑکیاں اپنے رنگین اور اوٹ پٹانگ سراپوں کی وجہ سے واقعی ’دیکھنے کی چیز‘ بن کر رہ گئے۔

ایک اور ٹی وی چینل ’اے پلس‘ کو واقعی قابل تحسین ہے، جس نے ’نور رمضان‘ کی محفل سجائی۔ جس میں میزبان جگن کاظم اور قاسم علی شاہ کی دلچسپ، معلوماتی اور ایمان افروز بلکہ زندگی میں نئے اسلوب کو متعارف کراتی گفتگو میں مقصدیت کا پہلو نمایاں رہا۔ ’اے پلس‘ سے ہی سحری میں فرحان علی وارث بھی نشریات کرتے ہوئے نمودار ہوئے، یعنی وہ بھی وسیم بادامی اور عامر لیاقت کی طرح اس رمضان میں مصروف رہے۔ جن کی افطاری، آج میں اور سحری ’اے پلس‘ کی مرہون منت رہی۔

ناظرین کے لیے تو ان رمضان نشریات میں دیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ جس کا پسندیدگی کا جو حلقہ ہے، اس نے اپنے محبوب میزبان کو ہی دیکھا لیکن غیر جانبدارنہ تجزیہ یہی ہے کہ فہد مصطفی ان سب پر ہمیشہ کی طرح سبقت لے گئے۔ جو جہاں پروگرام میں شریک مہمانوں پر انعامات کی بارش کرتے، وہیں ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے افراد کو اپنا گرویدہ بناگئے۔ایک عام رائے یہ ہے کہ ’جیتو پاکستان‘ سے اگر فہد مصطفی کو نکال دیا جائے تو یہ شواس قدر مقبولیت اور شہرت نہ حاصل کرے جو اس وقت ریٹنگ کے توڑتے میٹر کی عکاسی سے معلوم ہوتا ہے۔