Get Alerts

مریم کو جانے دیں، ریموٹ کنٹرول اب شہباز کے ہاتھ ہے، مرضی کا پروگرام لگائیں

مریم کو جانے دیں، ریموٹ کنٹرول اب شہباز کے ہاتھ ہے، مرضی کا پروگرام لگائیں
شریف خاندان کی سیاست سے سب واقف ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے صرف کاروبار کرتے ہیں۔ سیاست نہیں کرتے۔ سچ میں شریف لوگ ہیں۔ انہیں سیاست میں گھسیٹا گیا ہے۔ شریف خاندان کے چیف میاں محمد شیر شریف سمجھ دار بندے تھے۔ عمر بھر محنت کی اوراپنے کام سے کام رکھا۔ اصل شرارت نواز شریف کی ہے جس نے محض شوق کی خاطر احباب کے کہنے اور اکسانے پر سیاست کی پرخار وادی میں قدم رکھا۔

دیکھا دیکھی شہباز شریف بھی ادھر کو نکل آئے مگر چالاک و ہشیار واقع ہوئے ہیں۔ بڑے بھائی کی طرح کانوں کے کچے نہیں ہیں۔ سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں۔ انقلابی بننے کےلئے درست موقع کا انتخاب کرتے ہیں اور فیض اور جالب کی نظمیں ترنم میں پڑھ کر دل بہلا لیتے ہیں۔ آج کل لندن میں جناح کیپ پہن کر پھرتے ہیں۔ بڑے بھائی کا انقلابی بخار اتار چکے ہیں۔ خیر سے امی اور کئی رشتے دار بھی لندن پہنچ چکے ہیں۔ ایون فیلڈ کی راہداریوں کی رونقیں جاتی امرا کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ شہباز شریف بھرپور طریقے سے سیاسی محاذ سنبھال چکے ہیں۔ پارلیمانی امور سمیت عمران خان کے بیانات پر ردعمل آ رہا ہے۔ خاموش نہیں بیٹھے ہیں۔

شہباز شریف اب لندن میں ہیں اور جذباتی فیصلے نہیں کرتے کہ بھائی کو ساتھ جہاز میں بٹھا کر پاکستان آ جائیں۔ شہباز شریف نے سوچ سمجھ کر پاکستان سے جانے کا فیصلہ کیا ہےاور محنت شاقہ کے بعد وہ بھائی کو نکال باہر لے جا سکے ہیں۔ لندن میں بیٹھ کر بھی تو سیاست کی جا سکتی ہے۔ شہباز شریف لندن میں بیٹھ کر سیاست کر کے دکھا رہے ہیں۔ الطاف بھائی کر سکتے ہیں تو شہباز شریف کیوں نہیں کر سکتے؟



سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے بھی شریف خاندان کو ملک سے باہر رکھ کر کیا بگاڑ لیا تھا؟ اب کی بار تو کوشش کر کے نکلے ہیں یعنی اپنی مرضی سے لندن میں ڈیرہ لگایا ہے۔

مریم نواز معصوم ہے۔ الہڑپن میں کچھ بول گئی تھی۔ حاسدوں نےسر ہی آسمان پر اٹھا لیا۔ بے نظیر بھٹو بنانے پر تل گئے۔ موم کی گڑیا کو آئرن لیڈی سے تشبیہہ دینے لگے۔ مریم نواز شہزادی ہے۔ کسی ناول کی کہانی ہے۔ جلسے و جلوس، عدالتوں کے چکر، قید وبند کی صعوبتیں، لڑنا، بھڑنا مریم نواز پرجچتا ہی نہیں ہے۔ یہ تو مجبور ی تھی۔ جذباتی پن تھا۔ باپ کی تکلیف دیکھی نہیں گئی۔ ایک بیٹی کی باپ کے لئے تڑپ تھی۔ سیاست کہاں تھی؟ سیاست کرنا ہوتی تو حسن اور حسین نواز میدان میں نکلتے اورحکمرانوں کو وخت ڈال دیتے۔

مگر وہ سمجھ دار ہیں اور اپنے چچا کی بات سنتے ہیں۔ مریم نواز تو بچی ہے۔ اسے کیا پتہ کہ سیاست کیسے کی جاتی ہے؟ سیاست کی بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی بیٹی اپنے باپ کے لئے بولتی ہے تو وہ سیاست تو نہیں ہوتی نا۔



نیب اور حکمرانوں کو مریم نواز سے معلوم نہیں کیا خوف ہے۔ سب کو جانے دیا ہے اور مریم باجی پر روک لگائی ہوئی ہے۔ بھائی مریم باجی کو بھی جانے دو۔ بیٹیوں کے ساتھ محبت سے پیش آتے ہیں۔ مریم تو فرمانبردار بھی ہے۔ کہا گیا کہ سیاسی بیان بازی نہیں کرنی ہے، مجال ہے مریم نواز نے لب کھولے ہوں۔ پھر بھی یہ سلوک کہ بیمار باپ سے دور رکھنے کا ظلم روا ہے۔ کچھ خدا کا خوف کرو۔ تمہارے گھر بھی بیٹیاں ہیں۔ ویسے بھی بازی تو اب شہباز شریف کے ہاتھ چلی گئی ہے۔ شہباز شریف فیورٹ ہیں۔ پارٹی ریموٹ مریم کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اب مرضی کا پروگرام لگائیں۔ غیر مشروط حمایت بھی ملے گی اور احتجاج بھی نہیں ہوں گے۔ ووٹ کو عزت دو کی بات بھی نہیں چلے گی۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔