’نواز شریف کے باوفا ساتھی مشاہد اللہ خان اب ہم میں نہیں رہے‘

’نواز شریف کے باوفا ساتھی مشاہد اللہ خان اب ہم میں نہیں رہے‘
مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما مشاہد اللہ خان انتقال کر گئے۔ مشاہد اللہ خان کافی عرصے سے علیل تھے۔ ان کی وفات کی تصدیق سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ نواز کے رہنما محمد زبیر عمر نے کی۔

مشاہد اللہ خان کی عمر 68 برس تھی۔ وہ نواز شریف کے آخری دورِ حکومت میں ماحولیاتی تبدیلی کے وفاقی وزیر رہے اور 2009 سے پارٹی کی ٹکٹ پر مسلسل سینیٹر چلے آ رہے تھے۔

1953 میں پیدا ہونے والے مشاہد اللہ خان کی پیدائش راولپنڈی کی تھی لیکن وہ اپنی زندگی کا بڑا حصہ کراچی میں رہے اور یہاں سے مسلم لیگ نواز کی ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑتے رہے۔ یہ 1990 سے مسلم لیگ کا حصہ تھے۔

جنوری 2015 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سربراہ بنایا لیکن انہوں نے یہ عہدہ لینے سے انکار کیا اور بعد ازاں انہیں وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی بنایا گیا۔ تاہم، کچھ ہی عرصے بعد انہیں ان کے عہدے سے اس وقت ہٹا دیا گیا جب انہوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ایک انٹرویو کے دوران یہ دعویٰ کر ڈالا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لئے 2014 میں جو دھرنا دیا گیا تھا، اس کے پیچھے اس وقت کے آئی ایس آئی سربراہ میجر جنرل ظہیر الاسلام تھے۔ مشاہد اللہ خان نے انکشاف کیا کہ نواز شریف کے پاس کچھ آڈیو ریکارڈنگز تھیں جو کہ انہیں IB سے موصول ہوئی تھیں۔ ان ٹیپس سے ظہیر الاسلام کا دھرنے کے ساتھ تعلق ثابت ہوتا تھا۔ مشاہد اللہ خان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انٹیلی جنس بیورو نے لیفٹینٹ جنرل ظہیر الاسلام کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی جس میں وہ مختلف لوگوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ دھرنے کے دوران کس طرح افراتفری پھیلانی ہے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے۔

مشاہد اللہ خان نے اس دھرنے کے ایک سال مکمل ہونے پر بی بی سی کو دیےگئے ایک انٹرویو میں کہا کہ 28 اگست کی شام وزیر اعظم نواز شریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران یہ آڈیو ٹیپ انھیں سنائی۔

مشاہد اللہ کے بقول اس وقت جو سازش تیار کی جا رہی تھی اس کا نشانہ صرف سول حکومت یا وزیراعظم نواز شریف نہیں تھے بلکہ یہ سازش بری فوج کے سربراہ کے خلاف بھی تھی۔

’اس سازش کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان اتنی خلیج اور اختلافات پیدا کر دیے جائیں کہ نواز شریف کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ جنرل راحیل کے خلاف کوئی ایکشن لیں اور جب وہ ایکشن لیں تو اس وقت کچھ لوگ اس وقت حرکت میں آئیں اور اقتدار پر قابض ہو جائیں۔‘

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے اس وقت کے سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا تھا کہ یہ خبریں بے بنیاد ہیں۔ مشاہد اللہ خان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ لیکن 2017 میں جب نواز شریف کو ان کے عہدے سے عدالتی حکم کے ذریعے ہٹایا گیا تو شاہد خاقان عباسی نے ان کو ایک بار پھر وفاقی کابینہ میں وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کا قلمدان تھما دیا۔ کچھ عرصہ قبل نواز شریف نے PDM کے ایک اجلاس میں تقریر کے دوران اس بات کی تصدیق کی کہ ظہیر الاسلام نے اسلام آباد کی ایک معروف کاروباری شخصیت کو دھرنے کے عروج کے دنوں میں رات گئے استعفے کا مطالبہ کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ یاد رہے کہ جو کچھ مشاہد اللہ خان نے اپنے اس انٹرویو میں کہا، یہ سب باتیں پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک رہنما برگیڈیئر (ر) سیمسن شرف پہلے ہی وقت ٹی وی کے ایک انٹرویو میں مطیع اللہ جان سے بات چیت کرتے ہوئے بتا چکے تھے۔

مشاہد اللہ خان شعر و شاعری پر بھرپور عبور رکھتے تھے اور برمحل شعر کہنے کی ان کی بڑی خوبصورت عادت تھی۔ پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں بھی وہ شاعری کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا کرتے تھے۔ اردو زبان پر انہیں عبور حاصل تھا اور خود بھی ایک مہاجر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ پارلیمنٹ میں ان کے کاٹ دار جملے اور دبنگ انداز بڑا مقبول تھا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھی وہ نہ صرف اپنی پارٹی کا بھوپور دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے بلکہ اپنے دلیرانہ مؤقف کے باعث پارٹی کارکنان میں بھی بہت مقبول تھے۔ یہاں تک کہ جب 2015 میں انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تو مسلم لیگ ن کے کارکنان نے ٹوئٹر پر #IamMushahidullah ٹرینڈ کر کے اپنی پارٹی قیادت کے سامنے بھرپور انداز میں احتجاج کیا۔

موجودہ دورِ حکومت میں جہاں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کے ساتھ ان کی نوک جھونک چلتی رہی، وہیں ان کی سینیٹ میں وہ تقریر کے بہت مشہور ہوئی جس میں انہوں نے حبیب جالب کا یہ شعر بار بار دہرایا کہ:

حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ



2021 کے سینیٹ انتخابات کے لئے مسلم لیگ ن کی جانب سے ان کو ایک بار پھر ٹکٹ دیا گیا تھا لیکن پارٹی کے اندر اس حوالے سے مخالفت جاری تھی کہ ان کو شدید علالت کے باعث ٹکٹ نہیں دیا جانا چاہیے کیونکہ وہ پارٹی کی درست انداز میں نمائندگی نہیں کر پائیں گے۔ اطلاعات تھیں کہ اس حوالے سے پارٹی کے اندر دو گروہ ہیں جن میں سے ایک کو مشاہد اللہ خان اور دوسرے کو اعظم نذیر تارڑ پر اختلاف ہے۔ تاہم، وہ 17 فروری کی رات سینیٹ انتخابات سے دو ہفتے قبل ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

ان کے انتقال پر مریم نواز نے ٹوئٹر پر لکھا کہ آج نواز شریف کا ایک باوفا ساتھی ہمیں چھوڑ گیا۔ میں ان کی پدرانہ شفقت اور محبت کو کبھی بھلا نہیں پاؤں گی۔ مشاہد اللہ خان کی وفات مسلم لیگ نواز کے لئے واقعتاً بڑا نقصان ہے جسے پورا کرنا مشکل ہوگا۔