زہرہ حیات نے پاکستان کی دلیر ترین شہری کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ اُن کے مطابق یہ روایت شکنی کا ایک ’’خوبصورت مظاہرہ‘‘ تھا۔
جب میں عاصمہ جہانگیر کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے اسٹیڈیم پہنچی تو مجھے شروع میں کوئی عورت دکھائی نہ دی۔ میں قدرے ہچکچائی، اور وفات کے معروضات پر غور کرنے لگی۔ ذہن میں سوال ابھرا کہ کیا عورتیں نمازِ جنازہ میں شرکت کرتی ہیں؟ کیا خبر وہ مجھے یہاں سے چلے جانے کا کہہ دیں؟لیکن جلد ہی میں نے دلیل سے خود کو قائل کیاکہ کیا عاصمہ جہانگیر بھی یہ کچھ سوچتیں؟ نہیں، وہ بلا تامل اندر چلی آتیں۔
میں نے عاصمہ جہانگیر کی’’ پیروی‘‘ کی، اور میں جانتی تھی کہ آج کے بعد مجھے کئی مرتبہ اُن کی راہوں پر چلنا پڑے گا۔ میں سربلند کرکے کھڑی تھی، اور پھر قدم اٹھاتے ہوئے اندر چلی آئی ۔ اور میں اکیلی نہیں تھی۔ درحقیقت بہت سی خواتین وہاں موجود تھیں۔ بہت سی خواتین وکلاتھیں جو اپنی کولیگ کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کرنے وہاں پہنچی تھیں۔ ہم ایک دوسرے سے پوچھ رہی تھیں کہ خواتین کے لیے آخری رسومات میں شرکت کرنے کے لیے کو ن سی جگہ مخصوص کی گئی ہے ۔ ہمیں توقع تھی کہ کسی بھی لمحے عاصمہ کی میت سے دور خواتین کے لیے مخصوص کردہ جگہ پر جانے کے لیے کہا جائے گا۔ لیکن وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ جب ہم سامنے کھڑے تھے تو اعلانات ہونا شروع ہوگئے کہ نماز جنازہ ادا ہونے والی ہے ۔ ہم توقع کررہے تھے کہ اب آخرکار ہمیں بتایا جائے گا کہ ہم وہاں سے ہٹ کرآدمیوں کی صفوں کے پیچھے کھڑی ہوجائیں۔ لیکن اس کی بجائے ہوا یہ کہ آدمیوں سے کہا گیا کہ وہ پیچھے ہٹ کر عورتوں کے لیے جگہ بنائیں۔ ہم نے اسی طرح آدمیوں کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔ کسی نے اعتراض نہ کیا۔ یہ ادائیگی بہت مناسب ، بلکہ خوبصورت تھی ۔
مجھے پتہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ عورت، جو اکیلی آدمیوں کے باررومز اور کورٹ رومز میں، بلکہ ایسی جگہوں پر چلی جاتی تھی جہاں صرف مرد ہی جاتے ہیں، کس طرح برداشت کرتی کہ اُس کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے آنے والی خواتین سے امتیازی سلوک کیا جاتا ؟ یا اُنہیں مردوں سے پیچھے کھڑے ہونے کے لیے کہا جاتا؟ چنانچہ اپنی زندگی کی طرح اپنی موت کے وقت بھی وہ روایت شکن رہیں۔ الوداع عاصمہ۔ یقیناًآپ کی روح اُس وقت تک بے قرار رہے گی جب تک یہ معاشرہ تبدیل نہیں ہوجاتا۔
زہرہ حیات ایک وکیل ہیں، اور اس وقت یو سی بارکلے میں انتھروپولوجی کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔