غلام محمود ڈوگر کیس؛ آڈیو لیکس کے باوجود سپریم کورٹ نے وہی فیصلہ سنایا

غلام محمود ڈوگر کیس؛ آڈیو لیکس کے باوجود سپریم کورٹ نے وہی فیصلہ سنایا
کل پرویز الہیٰ کی مبینہ ٹیلی فون کال لیک ہوئی اور اس میں غلام محمود ڈوگر کیس سے متعلق سپریم کورٹ جج کے ساتھ ان کی مبینہ بات چیت منظرعام پر آئی۔ ان مبینہ آڈیو لیکس کے بعد ایک دن پہلے ہی کہا جا رہا تھا کہ سپریم کورٹ کا یہ بنچ خاص طرح کا فیصلہ سنائے گا اور پھر ہم نے دیکھا کہ آج اسی بنچ نے وہی فیصلہ سنایا جس کی ایک روز قبل بات ہو رہی تھی۔ مبینہ ٹیلی فون کالوں پر انصاف دینے کی روایت مرحوم جسٹس ملک قیوم سے شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری عدالتوں نے اب تک کچھ نہیں سیکھا۔ ان مبینہ فون کالوں سے میرے جیسے عام آدمی کا پورے نظام اور عدلیہ پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی افتخار احمد کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ جب تمام انکلز دور ہوں گے اور نوجوانوں کو جگہ ملے گی تو تب ہی سیاسی پارٹیوں کے حالات بہتر ہوں گے۔ اگر شاہد خاقان عباسی نئی قیادت کے ساتھ چلتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ جگہ خالی کر دیں۔ مریم نواز کے ساتھ ان کی ملاقات سے مجھے نہیں لگتا کہ کوئی دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل جیسے لوگوں نے اس طرح کے مکالمے کو بھی جاری رکھنا ہے، پارٹی میں بھی رہنا ہے اور انتخابات میں بھی حصہ لینا ہے تو میرا نہیں خیال کہ یہ تینوں چیزیں اکٹھی نہیں چل سکتیں۔

موجودہ حکومت کو آج ہی اسمبلیاں تحلیل کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دینا چاہئیے۔ جو شہزادہ آنا چاہتا ہے اسے آنے دیں اور پھر ہم بھی دیکھ لیں کہ اتنے خراب معاشی حالات میں وہ کیسے سارے معاملات ٹھیک کرتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ عوام کا ایک بہت بڑا حصہ بھی سمجھتا ہے کہ حالات ٹھیک کرنے کا یہی واحد حل ہے۔ عمران خان کسی نہ کسی طرح الیکشن کی تاریخ لے کر رہیں گے کیونکہ انہیں عدلیہ کی جانب سے خاص پروٹوکول مل رہا ہے، مرضی کے بنچ مل رہے ہیں۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ یہی وہ صورت ہے کہ وہ مقدموں سے بچ سکتے ہیں، گرفتاری سے بچ سکتے ہیں، اسی لئے وہ فوری انتخابات مانگنے پر بضد ہیں، وہ تین چار مہینے نہیں انتظار کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ چیف الیکشن کمیشن استعفیٰ دے دیں اور صرف اسی صورت میں عمران خان کا گیم پلان ناکام ہو سکتا ہے، ورنہ تو وہ چپ نہیں بیٹھیں گے۔

آئین صرف یہ نہیں کہتا کہ 90 روز میں الیکشن کروانے ضروری ہیں۔ آئین صدر کے اختیارات کی بات بھی کرتا ہے، الیکشن کروانے کیسے ہیں یہ بھی بتاتا ہے، اگر عمل کرنا ہے تو پھر آئین کی ساری ہدایات پر عمل کریں۔ اگر صدر لکھ کر دے دیں کہ وہ ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں تو پھر چاہے چیف الیکشن کمیشن کو حکم دے دیں کہ حالات جیسے بھی ہیں، عملہ ہے یا نہیں، سکیورٹی نہیں بھی ہے مگر آپ پھر بھی 90 دن میں الیکشن کروائیں۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ یہ وہی صدر ہیں جنہوں نے 70 کے قریب آرڈی ننس جاری کیے، ایک دن میں 8 آرڈی ننس بھی جاری کیے۔ یہ واحد صدر ہیں جن کے بے شمار آرڈی ننس عدلیہ نے اٹھا کر باہر پھینک دیے۔ انہوں نے آئین کے ساتھ فراڈ کیا۔

شاہد خاقان عباسی جیسے لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ وہ ایڈوائزری بورڈ میں آ جائیں اور نوجوانوں کو پارٹی چلانے دیں۔ ورنہ مجھے نہیں لگتا کہ ان کے لئے پارٹی میں جگہ رہ جائے گی۔ پرویز الہیٰ والی آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ چیف جسٹس کو چاہئیے کہ یہ بنچ دوبارہ سے تشکیل دیں۔

میزبان رضا رومی نے کہا کہ آج کی رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 37 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ میرے حساب سے اس بے اختیار حکومت کو فوراً گھر چلے جانا چاہئیے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔